مہینے یا سال پہلے نہیں بلکہ عام انتخابات کے اگلے ہی دن یعنی 9 فروری کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنان مبینہ دھاندلی کے خلاف جب شانگلہ کی سڑکوں پر نکلے اور احتجاجی دھرنا دیا تو پولیس نے ان کے خلاف کارروائی میں دیر نہیں لگائی اور آنسو گیس و لاٹھی چارچ کیا جس سے 3 افراد مارے گئے جبکہ 10 زخمی ہوئے۔
یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ وفاق اور پھر خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد پارٹی مشکل میں ہی رہی اور 9 مئی کے پر تشدد واقعات کے بعد تو وہ پورے ملک میں زیر عتاب آگئی۔ غیر اعلانیہ پابندی کے باعث اکثر رہنما مہم بھی نہیں چلا سکے اور یہی نہیں بلکہ پشاور میں یوم کشمیر پر بھی ریلی کی اجازت نہیں ملی اور رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کرلیے گئے۔
مزید پڑھیں
لیکن پھر الیکشن کے نتائج آئے اور ہوا بدل گئی۔ صورت حال کچھ ایسی تیبدیل ہوئی کہ جو پولیس تحریک انصاف کے رہنماؤں کی گرفتاری کے لیے مسلسل چھاپے مارنے مار رہی تھی وہ اب احتجاج کے دوران بھی پارٹی کارکنان کو سیکیورٹی دے رہی ہے۔
پی ٹی آئی دھرنا اور پولیس سیکیورٹی
انتخابات کے نتائج واضح ہونے کے ساتھ ہی پولیس کے رویے میں بھی تحریک انصاف کے لیے نرمی دیکھنے میں آئی ہے۔ الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف پی ٹی آئی سڑکوں پر ہے اور روڈ بند کرکے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اور گزشتہ تین چار روز سے موٹروے کو ٹول پلازہ پر بند کرکے احتجاج کر رہی ہے لیکن مجال ہے کہ پولیس کے کان پر جوں تک رینگ جائے۔
احتجاج کے دوران پولیس کی بھاری نفری تعنیات رہتی ہے اور احتجاجیوں کو مکمل سیکیورٹی فراہم کر رہی ہے۔
پشاور کے کرائم رپورٹر اور صحافی زائد امداد کے مطابق الیکشن میں اکثریت ملنے اور حکومت بنانے کی تیاری شروع کرنے کے بعد پولیس کے دل میں پی ٹی آئی کے لیے نرم گوشہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
زائد نے بتایا کہ پولیس افسران کو ڈر ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد پی ٹی آئی انتقامی کارروائی کرے گی۔
’پولیس حکومت کے حکم کے مطابق کام کرتی ہے‘
انہوں نے کہا کہ ہر نئی حکومت پسندیدہ افسران کو لاتی ہے اور پہلے سے تعینات افسران کو او ایس ڈی بنا دیا جاتا ہے اور یہ ہی صورت حال اس بار بھی پیش آئے گا۔
زائد کا کہنا تھا کہ افسران کو پتا ہے کہ نئی حکومت کے بعد ان کا عہدہ نہیں رہے گا اس لیے وہ بھی پریشان ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 8 فروری سے پہلے صورت حال اس حد تک مختلف تھی کہ پی ٹی آئی کے ورکرز اور رہنما بند چاردیوری میں بھی جمع نہیں ہو سکتے تھے اور ان کے گھروں پر چھاپوں کا سلسلہ جاری تھا اور انہیں مقدمات کا سامنا تھا لیکن الیکشن کے بعد وہ حالات نہیں رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب پی ٹی آئی کے ورکرز نہ صرف ازاد گھوم پھر رہے ہیں بلکہ پولیس اور سول افسران کو دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔’
صحافی انور زیب کے مطابق کے پی پولیس جو الیکشن سے پی ٹی آئی رہنماؤں اور ورکرز کو تلاش کر رہی تھی اب انھیں مکمل سکیورٹی دے رہی ہے۔ ’موٹروے ٹول پلازہ پر احتجاج پر خاموش پولیس کو دیکھ کر ہنسی اتی ہے۔ پہلے پولیس کو دیکھ کر ورکرز چھپ جاتے تھے اب پولیس کے سامنے سینہ تان کے احتجاج کر تے ہیں۔
کیا کے پی میں پی ٹی آئی والوں گرفتاری کا خطرہ نہیں ہوگا؟
9 مئی کے بعد تحریک انصاف کے اکثر رہنما گرفتاری کے ڈر سے تاحال روپوش ہیں۔ کئی رہنماؤں کو گھروں پر چھاپے مار کر گرفتار کیا گیا۔ کے پی پولیس بھی مسلسل چھاپے مار رہی تھی لیکن اب وہی پولیس ان کی گرفتاری میں رکاوٹ بنے گی۔
انور زیب کے مطابق ماضی میں دیگر صوبوں میں مشکل حالات پیش آنے پر پی ٹی آئی رہنما کے پی کا رخ کرلیا کرتے تھے اور کے پی پولیس ہی انہیں مکمل سیکیورٹی فراہم کرتی تھی لیکن اب تو کے پی میں ایسے وزیر اعلی آرہے ہیں جو خود پولیس اور سول انتظامی افسران سے سخت ناراض رہتے ہیں اور اپنے حالیہ بیان میں بھی پولیس اور سرکاری افسران کو آنکھیں دکھا چکے ہیں۔
کیا پی ٹی آئی حکومت انتقامی کارروائی کرے گی؟
انتخابات میں اکثریت ملنے کے بعد تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں نے سرکاری افسران کو خبر دار کیا ہے اور ان کے خلاف انتقامی کارروائی کا عندیہ بھی دیا ہے۔
سابق وفاقی وزیر شہریار آفریدی کی ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے پی ٹی آئی ورکرز کو بیجا تنگ کرنے کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ان کی حکومت بنتے ہی سب سے پوچھا جائے گا۔
رہنما پی ٹی آئی شیر افضل مروت نے تو سب کو جیل میں ڈالنے کا اعلان کیا ہے تاہم صحافی زائد امداد کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کو بھی پتا ہے کہ اصل کردار پس پردہ تھے جو پولیس اور سول افسران سے کام لیتے تھے جن کے خلاف حکومت میں آنے کے بعد بھی کارروائی ان کے بس میں نہیں۔
زائد کے مطابق تمام اہم عہدوں پر تعینات افسران کا تبادلہ کردیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اب پولیس اور سول انتظامیہ پی ٹی آئی کے کہنے پر ان کے مخالفین کو تنگ کرے گی۔