30 جنوری 2024 کو بیجنگ میں چینی حکومت کی جانب سے منعقدہ ایک سرکاری تقریب میں غیر ملکی سفارت کاروں کی قطاریں صدر شی جن پنگ کو اپنی اسناد پیش کرنے کے لیے کھڑی تھیں۔ 309 سفارتکاروں میں سے ایک غیر متوقع شریک بھی تھا۔ 2 سال سے زائد عرصے کے مذاکرات کے بعد چین نے طالبان کے سابق ترجمان بلال کریمی کو بیجنگ میں سرکاری ایلچی کے طور پر تسلیم کیا جس کے بعد شی جن پنگ کی حکومت 2021 میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد ایسا کرنے والی دنیا کی پہلی حکومت بن گئی۔ بیجنگ کے اس اقدام کو الگ تھلگ طالبان کے لیے ہوا کا جھونکا سمجھا رہا ہے کیونکہ وہ مغربی پابندیوں کے باوجود عالمی سطح پر تسلیم کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
2021 میں امریکا کی جانب سے افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا کے بعد سے چین سرمایہ کاری اور منصوبوں کے ذریعے افغانستان میں قدم جما رہا ہے، جس کے نتیجے میں مغربی حمایت یافتہ افغان حکومت کا خاتمہ ہوا اور طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کی راہ ہموار ہوئی۔ لیکن جیسے ہی 30 جنوری کو بیجنگ کی جانب سے طالبان کو باضابطہ طور پر قبول کرنے کی خبر پھیلی، چینی وزارت خارجہ نے فوری طور پر ایک بیان جاری کیا، جس میں واضح کیا گیا کہ سفارتی اسناد کی قبولیت بیجنگ کی جانب سے افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اشارہ نہیں ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت تک بیجنگ کے اس اقدام نے طالبان کے لیے ایک بڑی سفارتی فتح حاصل کرلی تھی جو اپنی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے یہ گروہ بین الاقوامی محاذ پر الگ تھلگ رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ مسلح گروہوں کی حمایت کرنے اور خواتین کے حقوق اور آزادیوں پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے اسلامی قوانین کی سخت تشریح کرنے کے الزامات ہیں۔
مغرب کی جانب سے طالبان پر عائد پابندیوں کے نتیجے میں افغان معیشت پر شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ لیکن چین نے کریمی کو بیجنگ میں طالبان کے سفیر کے طور پر کیوں تسلیم کیا اور اس گروپ کے لیے اس کا کیا مطلب ہے؟
افغانستان میں چین کے گہرے مفادات
ایک ایسے وقت میں جب افغانستان کے طالبان حکمرانوں کو دنیا کے بیشتر ممالک میں بے دخل سمجھا جاتا ہے، چین نے اس گروپ کے ساتھ روابط میں اضافہ کر دیا ہے۔ 2023 میں متعدد چینی کمپنیوں نے طالبان حکومت کے ساتھ متعدد کاروباری معاہدوں پر دستخط کیے۔ ان میں سب سے نمایاں 25 سالہ طویل، ملٹی ملین ڈالر کا تیل نکالنے کا معاہدہ تھا جس کی تخمینہ سرمایہ کاری کی مالیت پہلے سال میں 150 ملین ڈالر اور اگلے 3 برس میں 540 ملین ڈالر تک تھی۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) کے محقق جیائی ژو نے کہا کہ ان تعلقات کی ایک تاریخ ہے۔ انہوں نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبان چینی حکومت کے لیے کوئی نامعلوم ادارہ نہیں، جس نے 1990 کی دہائی کے اواخر میں ان تک رسائی حاصل کی تھی اور طالبان کے ساتھ ایک شورش پسند گروپ کے طور پر کام کرنے والے تعلقات برقرار رکھے ہوئے تھے۔
ژو نے کہا کہ طالبان کے ساتھ بیجنگ کے دہائیوں پر محیط عملی تعلقات کئی عوامل کا ’فطری نتیجہ‘ ہیں، جن میں سب سے نمایاں طور پر سلامتی ہے۔ افغانستان کا براہ راست ہمسایہ ہونے کے ناتے چین کی اپنی سلامتی کا انحصار طالبان پر ہے۔ وہ انہیں الگ تھلگ کرنے یا ناراض کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے اور یقینی طور پر ایسا کرنے میں اس کی کوئی دلچسپی نہیں۔ اور بیجنگ اکیلا نہیں ہے جو اس گروپ کے ساتھ اس طرح کے عملی تعلقات کی تلاش میں ہے۔
جغرافیائی سیاست میں ’حقیقت پسندی اور مواقع‘ اہم محرک بن گئے ہیں
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے زیادہ تر ہمسایہ ممالک چین کی طرح ہی مؤقف رکھتے ہیں کہ طالبان کو الگ تھلگ کرنے کے بجائے ان کے ساتھ بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ طالبان سفیر کی قبولیت ایک ایسے چین کی نشاندہی کرتا ہے جو خارجہ پالیسی کے شعبے میں پہلا قدم رکھنے میں آسانی محسوس کر رہا ہے۔
1900 کی دہائی میں جب طالبان افغانستان میں برسر اقتدار تھے تو بہت سے علاقائی ممالک نے ان کے خلاف تنقیدی مؤقف اختیار کیا تھا۔ نئی دہلی میں قائم سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے سینئر وزیٹنگ فیلو اور کابل میں بھارت کے سابق سفیر گوتم مکھو پادھیائے نے الجزیرہ کو بتایا کہ 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے جغرافیائی سیاست میں ’حقیقت پسندی اور مواقع‘ اہم محرک بن گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حقیقت پسندی اس معنی میں ہے کہ فی الحال، ایسا لگتا ہے کہ شہر میں واحد کھیل میں طالبان ہیں۔ ’طالبان کی غیر مقبولیت اور ان کے جابرانہ اقدامات کے باوجود، ان کے خلاف مزاحمت، شہری اور فوجی، قریباً کچل دی گئی ہے۔ آج امریکا نے یہ واضح کردیا ہے کہ اس کے پاس کوئی زبردست جغرافیائی سیاسی مفادات یا افغانستان کو وسائل فراہم کرنے کی خواہش نہیں ہے۔
چین طالبان کے سفیر کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک ہے
چین طالبان کے سفیر کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک ہے جبکہ روس، ایران، ترکی اور بھارت سمیت کئی دیگر ممالک نے طالبان کے ساتھ نہ صرف انسانی ہمدردی کے منصوبوں پر بلکہ کابل میں اپنے سفارتی مشنز کو دوبارہ کھول کر بھی طالبان کے ساتھ رابطے کی کوششیں کی ہیں۔
گزشتہ ماہ جاری ہونے والی انٹرنیشنل کرائسز گروپ (آئی سی جی) کی ایک رپورٹ میں طالبان کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لیا گیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اپنے ممالک کے مفادات کے تحفظ اور طویل المیعاد طور پر طالبان کے طرز عمل کو اعتدال پسند بنانے کا بہترین طریقہ کابل کے ساتھ تحمل سے بات چیت کرنا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ دنیا نہیں رکے گی اور مغربی جذبات کے طالبان کے حق میں تبدیل ہونے کا انتظار کرے گی۔ آئی سی جی کی رپورٹ میں ایک علاقائی سفارت کار کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ہم یہاں فرنٹ لائن پر ہیں۔
طالبان کو کیا حاصل ہوا؟
مغرب کی دشمنی، خاص طور پر پابندیوں کی شکل میں، امداد پر انحصار کرنے والے افغانستان پر شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ بڑے پیمانے پر بے روزگاری اور فاقہ کشی ہے، ایک اندازے کے مطابق 2024 میں 23.7 ملین افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔
متعدد بین الاقوامی ایجنسیوں کی جانب سے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ایک کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد یعنی ملک کی آبادی کا قریباً 30 فیصد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ مارچ تک یہ تعداد بڑھ کر 15.8 ملین ہونے کا امکان ہے۔
اسی طرح انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے ایک اندازے کے مطابق 2022 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں 35 فیصد کمی آئی ہے، جس کے نتیجے میں 2021 سے اب تک 9 لاکھ سے زیادہ ملازمتیں ختم ہوئیں اور بڑے پیمانے پر بے روزگاری ہوئی۔ ان بحرانوں کا سامنا کرتے ہوئے طالبان کو شراکت داروں کی ضرورت تھی۔ مکھوپادھیائے نے کہا کہ اب اس کے پاس ایک شراکت دار ہے۔
طالبان اب کم و بیش ایک بڑی طاقت پر بھروسہ کر سکتے ہیں
انٹرنیشنل کرائسز گروپ (آئی سی جی) کے تجزیہ کار ابراہیم بہیس نے الجزیرہ کو بتایا کہ مثالی طور پر، طالبان مختلف وجوہات کی بنا پر امریکا اور چین جیسی بڑی عالمی طاقتوں اور روس اور بھارت جیسی علاقائی طاقتوں کے ساتھ مضبوط تعلقات چاہتے تھے۔ امریکا کی سرد مہری کی وجہ سے چین طالبان کے لیے اور بھی اہم ہوگیا ہے۔
محتاط طالبان؟
ابراہیم بہیس نے متنبہ کیا کہ چین کے ساتھ گہرے تعلقات کے لیے طالبان بڑی قیمت چکانا پڑ سکتی ہے، کیوں کہ چین کی گرفت میں آنے کی صورت میں دوسرے ممالک سے دوریاں بڑھیں گی۔ لیکن فی الحال، دونوں فریق اس کھیل کو کھیلنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ تاہم تسلیم کیے جانے کے باوجود طالبان اب بھی اس بارے میں محتاط رہ سکتے ہیں کہ بیجنگ کے ساتھ کس حد تک بات چیت کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان اب بھی چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو کسی حد تک قابو میں رکھنے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ جتنا زیادہ وہ بیجنگ کی طرف راغب ہوں گے، روس اور بھارت جیسی علاقائی طاقتیں کابل کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے سے ہچکچائیں گی، جس سے غیر ملکی سرپرستوں کی یکسانیت کا مخمصہ جنم لے رہا ہے جس سے بچنے کے لیے طالبان بہت بے چین ہیں۔
بہیس نے مزید کہا کہ چین، واضح وجوہات کی بنا پر، خطے کی رسائی اور طالبان کے ساتھ روابط کے ایک اہم محرک کے طور پر ابھرا ہے۔ تاہم، ایسا لگتا ہے کہ ان سب عوامل نے ایک ایسا دائرہ پیدا کر دیا ہے جہاں طالبان جتنے زیادہ الگ تھلگ ہوجائیں گے، اتنا ہی وہ امریکا کی جانب سے فراہم کیے جانے والے سفارتی خلا میں چین کا رخ کریں گے۔