حالیہ عام انتخابات کے نتائج ہر طرف موضوع بحث ہیں کہیں امیدوار فارم 45 کی بنیاد پر اپنی شکست کے باوجود فتح یاب ہونے پر اصرار کررہے ہیں تو کہیں امیدوار اپنی جیتی ہوئی نشست یہ کہہ کر واپس کر رہے ہیں کہ یہ نشست ان کی نہیں فارم 45 کے مطابق جس نے ان سے زیادہ ووٹ لیے ہیں اسے دی جائے۔
کراچی میں فارم 47 کے مطابق آنے والے انتخابی نتائج پر مسلسل سوالات اٹھ رہے ہیں، نتائج کے اجراء کا سلسلہ اچانک منقطع ہونے سے بھی شکوک و شبہات نے جنم لیا اور آج تک ’شکست خوردہ‘ امیدوار اور عوام ان سوالوں کے جوابات طلب کررہے ہیں۔
مزید پڑھیں
سب سے بڑا سوال کراچی میں یہ اٹھایا جارہا ہے کہ متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے اتنی نشستیں کیسے حاصل کرلی ہیں حالانکہ ایم کیو ایم انتخابات سے قبل ہی یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ وہ کراچی سے اپنی کھوئی ہوئی نشستیں تقریباً اتنی ہی تعداد میں واپس لے گی۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ایم کیو ایم کی اتنی تعداد میں نشستیں حاصل کرنے کا مطلب ہے کہ کراچی کی سب سے مقبول جماعت وہی ہے لیکن ایک انتخابی حلقے کا نتیجہ ایسا ہے جسے دیکھ کر اس جماعت کی اسی ’مقبولیت‘ کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
قومی اسمبلی کا حلقہ 241 جہاں سے فارم 47 کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار مرزا اختیار بیگ 52456 ووٹ حاصل کرتے ہوئے کامیاب قرار پائے جبکہ دوسرے نمبر پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار خرم شیر زمان اور تیسرے نمبر جماعت اسلامی کے نوید علی بیگ رہے۔
قومی اسمبلی کے اسی حلقے سے کراچی کی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت ایم کیو ایم کے امیدوار اور سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار صرف 494 ووٹ حاصل کرسکے، اس ’انتخابی حقیقت‘ کا اگر سیاسی تجزیہ کیا جائے تو بات کچھ یوں کہی جائے گی کہ ایم کیو ایم کو اس حلقے نے یکسر مسترد کردیا۔
یہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی وہ نشست ہے جہاں سب سے پہلے آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنے والے وکیل اور سماجی کارکن جبران ناصر نے یہ کہتے ہوئے اپنی شکست تسلیم کی کہ نتیجہ اس کے حق میں آنا چاہیے جس نے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔
خیر نتائج کا معاملہ تو اب الیکشن کمیش آف پاکستان کے سامنے رکھا جا چکا ہے لیکن فارم 47 کے مطابق شہر کی مقبول ترین جماعت کے امیدوار ڈاکٹر فاروق ستار کو یہاں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، جو ماضی میں نہ صرف میئر کراچی کے عہدے پر فائز رہے بلکہ متعدد مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں الیکشن کمیشن کی شرائط کے مطابق اگر کوئی امیدوار اپنے حلقے کے کل رجسٹر ووٹرز کی تعداد کا 12 فیصد سے کم ووٹ لے تو الیکشن کمیشن اس کی ضمانت ضبط کر لیتا ہے، یہ زرِ ضمانت دراصل الیکشن کمیشن کے پاس بطور فیس کے جمع کرائی جاتی ہے۔
ایم کیو ایم کی مقبولیت کے دفاع میں کہا جاسکتا ہے کہ یوں تو حلقہ این اے 24 سے ان کے امیدوار ڈاکٹر فاروق ستار کی ضمانت ضبط ہوگئی مگر وہ اسی روشنیوں کے شہر کے ایک دوسرے حلقے یعنی این اے 244 سے 20 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب قرار پائےہیں۔