مزارِ غالبؔ پر پہنچتے ہی فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھائے تو بے ساختہ لبوں پہ یہ شعر آ گیا:
یہ مسائلِ تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم وَلی سمجھتے جو نہ بَادہ خوار ہوتا
شاید اس لیے کہ مزارِ غالبؔ تک پہنچنے کے لیے غالبؔ اکیڈمی کے سیکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد سے درخواست کرنا پڑی تھی، پھر ان کے حکم پر مزار کے داخلی آہنی گیٹ کا قُفل کھولا گیا، جبکہ اسی گلی سے زائرین جوق در جوق وَلی اللہ حضرت سیّدنا خواجہ نظامُ الدِین اَولیاء رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مزار کی زیارت کے لیے کھِنچے جا رہے تھے۔
اسداللہ خان غالبؔ 15 فروری 1869 کو بوقتِ ظہر 73 برس اور 4 ماہ کی عمر میں خالقِ حقیقی سے جاملے۔ نمازِ جنازہ دہلی دروازے کے باہر ادا کی گئی، تمام مراسم اہلِ سنت کے موافق ادا کی گئیں۔ تدفین بستی نظام الدین اولیاء دہلی میں چونسٹھ کھمبا سے متصل خاندانِ لوہارو کے قبرستان میں ہوئی جو غالبؔ کے خسر میرزا الہیٰ بخش خان معروف کے خاندان کی ملکیت تھا۔ لوحِ مزار پر میر مہندی مجروح کا قطعہ تاریخ کندہ ہے۔ یہ قطعہ اکمل الاخبار دہلی کی 17 فروری 1869 کی اشاعت میں مرزا غالبؔ کی وفات پر لکھی گئی تعزیتی تحریر میں درج تھا، جسے نظرِ ثانی کے بعد لوحِ مزار پر کندہ کرایا گیا تھا۔
2011۔2010 میں دورہ بھارت کے دوران صحافی دوست میری شدید خواہش پر دہلی پہنچتے ہی سب سے پہلے مزارِ غالبؔ پر حاضر ہوئے تھے۔ مزار پر قفل پڑا دیکھ کر غالبؔ اکیڈمی پہنچے، جہاں سیکریٹری غالبؔ اکیڈمی ڈاکٹر عقیل احمد سے ملاقات ہوئی، انہوں نے اکیڈمی کا دورہ کرایا۔
غالبؔ اکیڈمی کے بانی ہمدرد دواخانہ کے حکیم عبدالوحید (14 ستمبر 1908 تا 22 جولائی 1999) تھے، حکیم عبدالوحید ہمدرد پاکستان کے حکیم سعید کے بڑے بھائی تھے۔ وہ ’غالبؔ سوسائٹی‘ میں بھی سرگرمِ عمل تھے۔ انہوں نے مزارِ غالبؔ سے متصل پلاٹ خرید کر ’غالبؔ اکیڈمی‘ کی تعمیر شروع کرائی، جس کا افتتاح غالبؔ کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں 22 فروری 1969 کو صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین نے کیا تھا۔
غالبؔ اکیڈمی میں مرزا اسداللہ خان غالبؔ سے جڑی یادگاریں محفوظ ہیں، غالبؔ کے بنارس، لکھنؤ اور دہلی کے مکانات کی تصاویر، مرغوب غذاؤں کے نمونے، زیر استعمال ملبوسات، خطوط، ڈاک ٹکٹس، غالب کا کلام گانے والی ڈومنی کا مجسمہ، غالب کے اشعار پر مبنی ایم ایف حسین اور ستیش گجرال کی پینٹنگز اور برجندر سیال کے تخلیق کیے گئے انوکھے سنگ ریزے رکھے گئے ہیں۔
غالبؔ اکیڈمی میں قائم لائبریری میں بڑی تعداد میں کتب و رسائل موجود ہیں (یہ کتب و رسائل اب ریختہ ڈیجیٹل لائبریری کا بھی حصہ ہیں) اکیڈمی آڈیٹوریم میں غالبؔ کے یومِ پیدائش اور وفات پر سیمینار اور مشاعرے منعقد کیے جاتے ہیں۔ پیغامِ غالبؔ پر خطبات بھی اسی آڈیٹوریم کا خاصا ہیں۔ 2006 میں شروع کیا گیا ششماہی رسالہ ’جہانِ غالبؔ‘ بھی باقاعدگی سے شائع کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عقیل احمد نے بتایا کہ دنیا بھر سے غالبؔ کے عشاق یہاں آتے ہیں۔ دوستوں اور میں نے مزارِ غالبؔ پر ویڈیو رپورٹ بھی بنانا تھی، سیکریٹری صاحب سے مزار کھلوایا اور انہیں ساٹ(sound on tape) کے لیے بھی زحمت دی۔ ایک دوست نے آن کیمراہ سوال داغ دیا کہ آپ کو پورا یقین ہے کہ یہاں غالبؔ ہی دفن ہیں؟ اس سوال پر ڈاکٹر عقیل احمد نے حیرانی سے میری طرف دیکھا تو میں لقمہ دیا کہ ڈاکٹر صاحب غالبؔ کی قبر کس نے دریافت کی تھی؟
سُکھ کا سانس لیتے ہی ڈاکٹر عقیل احمد نے بتایا کہ دہلی میں قیام تک غالبؔ کے شاگرد ’حالی‘ باقاعدگی سے غالبؔ کے مرقد پر آتے رہے، تاہم لاہور سے شائع ہونے والے اردو مجلے ’مخزن‘ کے جنوری 1907 کے شمارے مدیر مخزن کے مضمون ’شعرا کے مزار‘ پر دہلی سے جہانگیر نامی مراسلہ نگار نے غالبؔ اور مومن کی قبروں کی شکستگی کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی فوری مرمت کا ذکر کیا تھا۔
اسی سلسلے میں مولوی محمد ذکا اللہ دہلوی کا طویل مضمون ’قبورِ دہلی سرگزشت‘ بھی ’مخزن‘ میں 3 اقساط میں بالترتیب مئی، جون اور اگست کے شماروں میں شائع ہوا تھا۔7 جون 1911 کو الہٰ آباد سے شائع ہونے والے روزنامہ پاینئر (Daily Pioneer) میں میسوری سے 27 مئی کو بھیجا گیا ڈاکٹر جے مارٹن کا مراسلہ(A Neglected Grave) شائع ہوا جو مزارِ غالبؔ کی تعمیر سے متعلق تھا۔
اس دوران جیونیوز کے اویس یوسفزئی اور میں مزار میں تصویر کشی میں غلطاں تھے کہ اچانک مزار کے باہر نمودار ہوئے سبز چولے میں ملبوس، سرخ آنکھوں والے ’ملنگ‘نے اشارہ کیا کہ باہر آئیں اور سر پر ٹوپی پہن کر اندر جائیں، فوراً حکم کی تعمیل کی گئی۔ میں نے موقع غنیمت جان کر پی ٹی سی (Piece to camera) بھی ریکارڈ کروا دی۔
ڈاکٹر عقیل احمد نے بتایا کہ مولانا محمد علی جوہر نے جے مارٹن کے مراسلے سے متاثر ہو کر اپنے ہفتہ وار اخبار کامریڈ کلکتہ کی 14 جنوری 1911 کی اشاعت میں ’غالب کا مزار‘ کے عنوان سے انتہائی پرجوش مضمون لکھا۔ کہا گیا تھا کہ مارٹن نے اردو اور غالب کے شیدائیوں پر احسان کیا ہے۔
8 جولائی 1911 کی اشاعت میں ’مزارِ غالبؔ فنڈ‘کھولنے کا اعلان کیا گیا۔ کامریڈ اخبار کی جانب سے 25 روپے اور کامریڈ کے جملہ اسٹاف کی جانب سے بھی 25 روپے فنڈ دینے کا اعلان ہوا۔ 8 جولائی 1911 سے 25 نومبر 1911 تک 872 روپے جمع ہو سکے۔ لیکن خاندانِ لوہارو نے مدد لینے سے انکار کردیا کہ وہ اپنے عظیم بزرگ کا مزار چندے پر نہیں بنائیں گے۔
1916 میں تحریک پھر اُٹھی، جب نظامی بدایونی نے 7 اگست 1916 کو اپنے اخبار ذوالقرنین میں ’مرزا غالبؔ کے مزار کی مرمت‘کے عنوان سے ادارتی نوٹ (شذرہ) لکھا۔1932 میں یہ تحریک پھر زور پکڑنے لگی، جب نظامی بدایونی نے 28 اپریل 1932 کو اپنے اخبار ذوالقرنین میں ’مرزا غالبؔ کے مزار کی تعمیر‘کے عنوان سے ادارتی نوٹ (شذرہ) لکھا تھا۔
مزار کا گیٹ کھُلا دیکھ کر اور بھی کئی لوگ اکٹھے ہوگئے تھے، یوں میرے دوستوں کو واکس پاپس (vox pops) کی سہولت بھی مل گئی تھی۔ یہیں ہماری ملاقات غالب کے فارسی کلام کو اردو کے قالب میں ڈھالنے والے نسیم عباسی صاحب سے ہوئی، ان کی کتاب بھی خریدی اور ان سے آٹو گراف بھی لیا، انہوں نے اپنی بہن کے لیے اپنے بھانجے کے توسط جسے میں جانتا تھا (پاکستانی صحافی) کے لیے اپنا پیغام بھی دیا، جو میں نے وطن واپسی پر مِن و عَن پہنچا دیا تھا۔
ڈاکٹر عقیل احمد نے بتایا تھا کہ 1953 تک گزرے 42 برس میں مزارِ غالبؔ کے لیے آوازیں اٹھتی اور دم توڑتی رہیں۔ 18 ستمبر 1953 میں ’ غالبؔ سوسائٹی‘ قائم ہوئی۔ نواب آف لوہارو نے اس بار چندے سے تعمیر کی اجازت دیتے ہوئے خود بھی 501 روپے کا حصہ ڈالا تھا۔
سہراب مودی کی فلم مرزا غالبؔ 1954 میں ریلیز ہوئی تھی، جون 1954 میں مزارِ غالبؔ کی موجودہ تعمیر کا آغاز ہوا تھا اور دسمبر 1954 میں مزار پر چوکھنڈی بنانے کا عمل تکمیل پذیر ہوا۔ مزار کے سامنے ایک کشادہ صحن بھی بنایا گیا۔ جسے 10 فروری 1954 کو عوام کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ 28 ستمبر 2005 کو محمکہ آثار قدیمہ ہند نے مزارِ غالبؔ کو قومی اثاثہ قرار دیکر ’اپنی‘ اہمیت دوچند کردی تھی۔
میں آج بھی اپنے دوستوں علی عمران، محمد فیاض راجا، اویس یوسفزئی، سعدیہ حیدری اور ڈاکٹر سعدیہ کمال کا مقروض ہوں کہ انہوں نے ایک بھرپور دن میرے ساتھ مزارِ غالبؔ پر گذارا۔ حرفِ آخر یہ کہ علامہ اقبال نے بھی 1905 میں غالبؔ کے مرقد پر حاضری دی تھی اور اسے شاعروں کا حج قرار دیا تھا۔ اقبال کی نظم ’مرزا غالبؔ‘ کے ساتھ بھارت کے سفر نامے سے آئندہ تک کے لیے اجازت چاہوں گا۔
فکر انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا
ہے پر مرغ تخیل کی رسائی تا کجا
تھا سراپا روح تو بزم سخن پیکر ترا
زیب محفل بھی رہا محفل سے پنہاں بھی رہا
دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے
بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور ہے
محفل ہستی تری بربط سے ہے سرمایہ دار
جس طرح ندی کے نغموں سے سکوت کوہسار
تیرے فردوس تخیل سے ہے قدرت کی بہار
تیری کشت فکر سے اگتے ہیں عالم سبزہ وار
زندگی مضمر ہے تیری شوخی تحریر میں
تاب گویائی سے جنبش ہے لب تصویر میں
نطق کو سو ناز ہیں تیرے لب اعجاز پر
محو حیرت ہے ثریا رفعت پرواز پر
شاہد مضموں تصدق ہے ترے انداز پر
خندہ زن ہے غنچۂ دلی گل شیراز پر
آہ تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے
گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے
لطف گویائی میں تیری ہم سری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں
ہائے اب کیا ہو گئی ہندوستاں کی سر زمیں
آہ اے نظارہ آموز نگاہ نکتہ بیں
گیسوئے اردو ابھی منت پزیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دل سوزئ پروانہ ہے
اے جہان آباد اے گہوارۂ علم و ہنر
ہیں سراپا نالۂ خاموش تیرے بام در
ذرے ذرے میں ترے خوابیدہ ہیں شمس و قمر
یوں تو پوشیدہ ہیں تیری خاک میں لاکھوں گہر
دفن تجھ میں کوئی فخر روزگار ایسا بھی ہے
تجھ میں پنہاں کوئی موتی آبدار ایسا بھی ہے