الیکشن نتائج ایسے تاریخی ہیں کہ سارا بلوچستان سڑک پر آکر بیٹھ گیا ہے۔ محمود خان اچکزئی کی پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ)، اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی)، ڈاکٹر مالک کی نیشنل پارٹی (این پی)، سب نے ہی الیکشن نتائج مسترد کردیے ہیں۔ جبکہ مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) سب سے زیادہ سیٹ جیت کر بھی سخت ناراض ہے۔ مولانا فضل الرحمان باقاعدہ مشتعل ہیں اور انہوں نے نوازشریف کو اپوزیشن میں بیٹھنے کی دعوت دی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے مسلم لیگ ن سے اتحاد کے لیے آئینی عہدوں کے علاوہ بلوچستان حکومت بھی مانگی ہے۔ مسلم لیگ ن کو اگر وزارتِ عظمیٰ چاہیے تو پیپلزپارٹی کو وزارتِ اعلیٰ بھی دینی ہوگی۔
نمبر گیم یہ ہے کہ پی پی پی اور جے یو آئی کو 11، 11 اور ن لیگ کو بلوچستان سے 10 سیٹیں ملی ہیں۔ بلوچستان میں براہِ راست انتخاب 51 سیٹ پر ہوتا ہے۔ 11 خواتین اور 3 اقلیتی مخصوص نشستیں شامل کرکے بلوچستان اسمبلی کی نشستیں 65 ہوتی ہیں۔
براہِ راست 51 سیٹ تک محدود رہیں تو 26 سیٹ جو پوری کرے گا وہ حکومت بنائے گا۔ پی پی، ن لیگ اور جے یو آئی تینوں ملیں تو آرام سے حکومت بنا سکتی ہیں۔ 2 پارٹیاں اتحاد کریں تو پھر بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے 4 اور 6 آزاد ارکان اہم ہیں۔ آزاد ارکان جدھر جائیں گے اس پارٹی کا وزیرِ اعلیٰ بنے گا۔
بلوچستان حکومت مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی کو ملتی دکھائی نہیں دیتی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ مولانا کے لیے ایک بڑا سیاسی فیور ہوگا۔ نیشنل پارٹی کی 3 سیٹ ہیں، اس کے سربراہ ڈاکٹر مالک نوازشریف کے بہت قریب ہوکر بھی حکومت بنانے کی دوڑ سے باہر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
کیچ کم گوادر کی سیٹ این اے 259 سے پی پی کے ملک شاہ گورگیج الیکشن جیتے ہیں۔ ملک شاہ کا گورگیج قبیلہ اس علاقے میں تقریباً موجود ہی نہیں ہے اور نہ ہی یہاں پیپلزپارٹی کا کوئی روایتی ووٹ بینک ہے۔ بی این پی مینگل، نیشنل پارٹی اور حق دو تحریک تینوں نے ملک شاہ گورگیج پر پاکستانی شہری نہ ہونے کا الزام لگایا ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ افغانستان کے ہلمند کے گورگیج بلوچوں کی سرداری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان میں گورگیج نوشکی اور افغان ایران سرحد کے نزدیک آباد ہیں۔
یعقوب بزنجو بھی اسی سیٹ سے الیکشن لڑ رہے تھے۔ یہ ایک ایسے امیدوار تھے جن کو پی پی اور ن لیگ دونوں نے ہی ٹکٹ جاری کیا لیکن انہوں نے آزاد الیکشن لڑنا پسند کیا۔ ملک شاہ گورگیج اور یعقوب بزنجو دونوں ایران کے ساتھ ہونے والی تجارت کا بڑا نام ہے۔ آصف زرداری نے کیچ گوادر کی سیٹ پر جیسے اینٹری دی اور سیٹ حاصل کی۔ اس سیٹ پر جو کچھ ہوتا رہا اس نے بلوچ قوم پرست جماعتوں کو مشتعل کردیا ہے۔ ان بلوچ قوم پرست جماعتوں کے ساتھ ایک اور ہاتھ یہ بھی ہوا کہ ماہرنگ بلوچ کی تحریک نے ان کی پوزیشن خراب کی اور حمایت کم ہوئی۔
پاکستان پیپلزپارٹی مرکز میں مسلم لیگ ن کے ساتھ حکومت میں شامل ہونے جا رہی ہے۔ کمال بے نیازی دکھاتے ہوئے پی پی کہہ رہی کہ وہ آئینی عہدوں پر قناعت کرے گی۔ اصل میں آصف زرداری بلوچستان کی صوبائی حکومت لینا چاہتے ہیں جبکہ نوازشریف بلوچستان کو ڈاکٹر مالک کے ذریعے چلانا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر مالک بلوچستان کی عسکری تنظیموں اور علیحدگی پسندوں کو نظریاتی طور پر چیلنج کرتے ہیں۔ پارلیمانی سیاست اور عوامی حمایت کی وجہ سے یہ عسکریت پسندی کا ایک طرح سے بہترین جواب بھی ہیں۔
ڈاکٹر مالک اپنے گھر سے قومی اسمبلی کی سیٹ ہار گئے ہیں، وہ بھی پیپلزپارٹی اور ایک ایسے امیدوار سے جو اس علاقے میں کاروبار تو کرتا ہے، اس کی رشتہ داری بھی ہے لیکن اس کا قبیلہ وہاں موجود نہیں ہے۔
بلوچستان کے بلوچ پشتون قوم پرست پارلیمانی سیاست سے تقریباً باہر ہوچکے ہیں اور پیپلزپارٹی کی واپسی ہوئی ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن کی مجبوری ہے کہ وہ مرکز میں حکومت بنانے کے بدلے بلوچستان میں پی پی کی حمایت کرے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کو یہ حمایت کیوں چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بلوچستان میں اقتصادی حوالے سے بہت کچھ ہونا ہے۔ پاکستانی معیشت کی جو فوری ضروریات ہیں اس کے لیے سرمایہ بلوچستان کے میگا پراجیکٹس سے ہی فوری دستیاب ہوسکتا ہے۔ تیز رفتار نجکاری میں ایک بڑی رکاوٹ پیپلزپارٹی ہے۔ مزدور دوست مزاج کی وجہ سے نجکاری کی مخالفت پی پی مجبوری ہے۔ پاکستان اسٹیل کی جگہ اکنامک زون بننا ہے۔ اسٹیل مل کی 18 ہزار 600 ایکڑ زمین صوبائی حکومت کی ہے۔ معیشت ایک ایسی ڈرائیونگ فورس ہے جس میں پی پی اپنا شیئر حصے سے بھی زیادہ لے رہی ہے۔
آپ اپنی سہولت کے لیے اسے کرپشن سمجھ لیں لیکن پاور شیئرنگ کرتے ہوئے یہ بھی تو دیکھا جاتا ہے کہ اپنے ووٹر کو فائدہ کدھر کیسے پہنچانا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی یہ فائدہ پہنچانے کے قابل نہیں رہ گئی۔ بلوچستان کے نواب سردار جے یو آئی میں شریعت کے نفاذ کے لیے شامل نہیں ہوئے تھے بلکہ وہ اسی پاور شیئرنگ اور حکومت کے لیے آئے تھے۔
یہاں سب سے اہم بات نوٹ کرنے کی یہ ہے کہ کپتان نے اپنے آخری بیان میں کہا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے کوئی اتحاد نہیں ہوسکتا، لیکن انہوں نے جے یو آئی کا نام نہیں لیا اور مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ اگر وہ کہتے ہیں کہ اللہ ایک ہے اور ہم بھی یہ کہتے ہیں تو اتحاد ہوسکتا ہے۔
پاکستانی سیاست نے بہت دلچسپ کروٹیں لی ہیں اور موڑ کاٹے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے لوگوں کو بھی، سیاستدانوں کو بھی، حوالدار بشیر کو بھی اور سارے سسٹم کو مسلسل جھٹکے لگ رہے ہیں۔