اگست 1990 میں عراق نے کویت پر الزام لگایا کہ وہ عراق کے رومیلیا آئل فیلڈ سے تیل چوری کر رہا ہے۔ معاملہ یہ تھا کہ اس آئل فیلڈ کا آدھا حصہ کویت اور آدھا عراق میں ہے۔
صدام حسین اس وقت عراق کے صدر تھے۔ اوریہ وہ دور تھا جب عراق اپنی فوجی طاقت کی وجہ سے پورے عرب پر بھاری تھا۔ صدام حسین نے کویت کو سبق سکھانے کے لیے 140000 سپاہی اور تقریباً 18000 ٹینک کویت پر حملہ کرنے کے لیے روانہ کر دیے۔ یہ جنگ تقریباً ایک برس تک جاری رہی۔ کویت کی مدد کے لیے امریکہ، فرانس، برطانیہ اور آسٹریلیا کے علاوہ کئی اور یورپی ممالک بھی شامل ہوئے۔
ہوا کچھ یوں کہ جب عراق اتحادی فوج کے آگے کویت جنگ ہار گیا تو اس کی پسپا فوج نے اپنے کئی ہزار ٹینکوں اور گاڑیوں کے ساتھ واپسی کی راہ لی۔ واپس آتے ہوئے ہاری ہوئی عراقی فوج نے اپنا غصہ نکالنے کے لیے کویت کے قریب پانچ سو تیل کے کنوؤں میں آگ لگا دی، جس کا نقصان کویت کو اگلی کئی دہائیوں تک بھگتنا پڑا۔
عراقی فوج نے جنگ ہارنے کے بعد واپس اپنے ملک آنے کے لیے عراق اور کویت کو ملانے والی واحد سڑک ’ہائی وے 80‘ کو استعمال کیا۔ مگر عراقی سپاہیوں کو یہ کب معلوم تھا کہ جس ہائی وے کو وہ آج ہائی وے 80 کا نام سے پکار رہے ہیں کل کو اسے ’ہائی وے آف ڈیتھ‘ کے نام سے جانا جائے گا۔
عراقی فوج کی اس طرح محفوظ واپسی کویت اور اس کے جنگی اتحادیوں کو ہضم نہ ہوئی۔ سو اتحادی فوج نے اپنے جہازوں کو کلسٹر بموں سے لوڈ کرنا شروع کر دیا۔ آن کی آن اتحادی فوج کے جنگی جہاز ہائی وے 80 پر پہنچے اور عراقی شکست خوردہ فوج پر کلسٹر بموں کی بارش کر دی۔
اس بمباری کے نتیجے میں 5 سو عراقی فوجی مارے گئے اور 2 ہزار عراقی ٹینک اور گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ عراقی فوج کی تباہی کے بعد یہ منظر اتنا خوفناک تھا کہ تاریخ میں اسے’ہائی وے آف ڈیتھ‘ یعنی ’موت کی شاہراہ‘ سے یاد رکھا گیا۔ کویت جنگ سے واپس اپنے وطن جانے والے عراقی فوجی راستے میں جانے کون سے خواب دیکھتے، تیز قدموں سے چل رہے ہوں گے، اس کی کس کو پرواہ تھی۔ اپنے پیاروں کو گلے لگانے کی حسرت میں کھلی بانہوں کو کلسٹر بموں نے کیسے کاٹ ڈالا، اس کا دکھ کس نے لکھا؟
ایسا ہی ایک اور واقعہ تاریخ نے افغانستان کے شہر مزار شریف میں نومبر 2001 کو دہرایا۔ قندوز میں طالبان کے جنگجو چاروں طرف سے شمالی اتحاد کی فوج کے گھیرے میں تھے اوپر سے امریکہ بم برسا رہا تھا۔ ان کے پاس دو ہی راستے تھے، لڑ کر موت کو گلے لگا لیتے یا ہتھیار ڈال کر قندوز کو چھوڑ کر مزار شریف سے واپسی کا راستہ اختیار کرتے۔ مگر اس راستے میں شمالی اتحاد کے سب سے طاقتور اور جنگجو لیڈر عبدالرشید دوستم کا قبضہ تھا۔
طالبان امریکہ اور شمالی اتحادی فوجوں سے شکست کھانے کے بعد، شمالی اتحاد کے سربراہ رشید دوستم سے محفوظ واپسی کے لیے مذاکرات کر رہے تھے کہ ہمیں مزار شریف سے گزرنے دیا جائے۔ مگر دوستم کو دو ڈھائی ہزار مسلح طالبان کا اپنے شہر سے گزرنے دینا خطرے سے خالی نہ لگا۔ مذاکرات ہوتے رہے، جس میں امریکی بھی برابر شریک تھے۔ آخر کار یہ طے ہوا کہ سی آئی اے کے اہلکار غیر ملکی جنگجوؤں سے پوچھ گچھ کرنے کے بعد انہیں جانے دیں گے، جبکہ مقامی جنگجو پوچھ گچھ کے بغیر جا سکتے ہیں۔
طالبان کی طرف سے ملا فاضل مذاکرات کر رہے تھے۔ لیوک ہارڈنگ اپنے مضموم ’دی سیج آف مزار شریف‘ میں لکھتا ہے کہ ملا فاضل ہر قیمت پر مقامی پشتون طالبان جنگجوؤں کو بچانا چاہتاتھا۔ اس کے مطابق ان غیر ملکی جنگجوؤں کے ساتھ دوستم اور امریکی کیا سلوک کرنے والے تھے شاید ملا فاضل اچھی طرح جانتا تھا۔ مگر اس نے اپنے مقامی طالبان کی خاطر انہیں نظرانداز کر دیا۔
مذاکرات کی کامیابی کے بعد مقامی اور غیر ملکی جنگجوؤں کو الگ کیا جانے لگا اور ان سے اسلحہ چھینا گیا۔ یہ کوئی 6 سے 8 سو غیر ملکی جنگجو تھے، ان کے ہاتھ باندھ کر انہیں کنٹینرز میں بھیڑ بکریوں کی طرح مزار شریف کے پاس قلعہ جنگی میں لایا گیا۔ قلعہ جنگی ایک پرانا قلعہ تھا جس کو دوستم کی فوج اپنے فوجی اڈے کے طور پر استعمال کر رہی تھی۔
قلعہ جنگی میں ان جنگجوؤں کو لا کر لائن میں کھڑا کیا گیا، پوچھ گچھ کے دوران فائرنگ شروع ہوئی، جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک جنگ میں تبدیل ہو گئی۔ دوستم کی فوج نے ان غیر ملکی جنگجوؤں کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا اور انہیں ایک ایک کر کے مار رہی تھی۔ اتنے میں امریکی ایئر فورس کے جہاز پہنچے جنہوں نے ان جنگجوؤں پر کلسٹر بموں کی بارش کر دی۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے قلعہ جنگی غیر ملکی جنگجوؤں کا قبرستان بن گیا۔ ہر طرف بکھرے انسانی اعضاء، چار سو پھیلتا خون، بارود کا دھواں اور بس۔۔
ان دو کہانیوں میں بس مقام اور 10 سال کا فرق ہے۔ ایک کویت کے ہائی وے 80 پر کویت اور اس کی اتحادی فوج نے کلسٹر بموں سے لکھی دوسری افغانستان کے شہر مزار شریف کے قلعہ جنگی میں دوستم اور اس کے اتحادی امریکہ نے برپا کی۔ جو خواب عراقی فوجی کویت سے زندہ بچ کر واپس اپنے گھروں کو جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے وہی خواب قدوز سے بچ جانے والے غیر ملکی جنگجو اپنی آنکھوں میں سجائے مزار شریف میں ہتھیار ڈال رہے تھے۔ ان کے خوابوں میں ان کے گھر تھے، ان کی ماں باپ ان کے بیوی بچے اور شاید ایک نئی زندگی۔
اگر ہم اس بات کو تھوڑی دیر کے لیے بھول جائیں کہ جنگ کون جیتا کون ہارا، عراقی فوجیوں کا انجام کیا ہوا، غیر ملکی طالبان جنگجوؤں کے ساتھ کیا کیا گیا، تو کچھ سوال ہیں جن کے جواب ہمیں تاریخ سے، جنگوں سے بچ کر آنے والے سپاہیوں سے، جنگ مسلط کرنے والے اداروں، رہنماؤں سے اور اپنے آپ سے کرنے ہیں۔ اور وہ یہ ہیں کہ کیا یہ دونوں قتل عام ارادی تھے؟ کیا یہ قتل عام ناگزیر تھے؟ یا یہ قتل عام بھی انتقام، لاعلمی اور خوف کے نتیجے میں جنم لینے والی غلطیوں کا حصہ تھے؟
جواب کچھ بھی ہو، مگر ایک بات طے ہے کہ جنگ انسانی عقل کی ناکامی کی دلیل ہے۔ اور دعا کریں کہ مستقبل میں انسانی عقل کبھی ناکام نہ ہو۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔