بدقسمتی سے ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال کوئی مثالی نہیں مگر ان دنون پشاور میں موبائل فون چھیننے اور رہزنی کے واقعات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے جس کے باعث شہری خود کوعدم تحفظ کا شکار سمجھتے ہیں اور انہوں نے رات کے وقت گھروں سے نکلنا بند کردیا ہے۔
ان بگڑتے ہوئے حالات کی ترجمانی دیر کے رہائشی عظمت علی کررہے ہیں جو ایک بار نہیں، 2 بار نہیں بلکہ 8 بار ڈکیتوں کے ہاتھوں لٹ چکے ہیں۔
عظمت علی نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رہزن موٹرسائیکل پر آتے ہیں اور پستول دکھا کر لوٹ لیتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایک مرتبہ جب ان کے ساتھ رہزنی کا واقعہ ہوا تو وہ اپنا خالی پرس تھما کر ڈکیتوں کو چکما دینے میں کامیاب ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وہ گھر سے نکلتے ہیں تو اپنا موبائل فون گھر ہی پر چھوڑ دیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا ‘آخری بار صدر کے علاقے میں میرا موبائل چھینا گیا’ْ۔ وہ بتاتے ہیں کہ اگر آدمی کے پاس موبائل فون اور پرس نہ ہو تو ڈکیتوں کی جانب سے تشدد بھی کیا جاتا ہے۔
ڈکیتی میں مزاحمت پر طالب علم کو گولی ماری دی گئی
متاثرہ شہری کا کہنا تھا کہ کچھ سال پہلے ان کے سامنے ایک طالب علم کو رہزنوں نے مزاحمت کرنے پر گولی مار دی تھی جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا تھا۔ وہ نقش آج بھی ان کے ذہن میں محفوظ ہیں۔
عظمت علی نے بتایا کہ ‘موبائل چھیننے کے 3 واقعات پولیس کو رپورٹ کرچکا ہوں لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ پولیس والے کہتے ہیں کہ آپ ڈکیتوں کوموبائل نہ دو بلکہ ان سے لڑو جو میں نہیں کرسکتا’۔
عظمت ہی نہیں بلکہ ایسے درجنوں افراد ہیں روزانہ راہ چلتے ہوئے موبائل فون اور نقدی سے محروم ہوجاتے ہیں۔
ایسے ہی افراد میں ہاشم خان بھی شامل ہیں جنہوں نے بتایا کہ ‘میں 8 فروری کو صبح کے وقت دفتر جارہا تھا کہ راستے میں کسی کی کال سننے کے لیے موبائل نکالا اور اچانک موٹرسائیکل سوار تیز رفتاری میں آئے اور موبائل چھین کرفرارہوگئے’۔
ہاشم خان نے ’وی نیوز ‘کو بتایا کہ یہ ان کے ساتھ پیش آنے والا دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل بھی ایسا ہوچکا ہے اور پولیس اسٹیشن جانے پرموبائل واپس دلانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی مگر ایسا نہیں ہوسکا۔
نجی ٹی وی چینل کا رپورٹراور ڈرائیور بھی موبائل فون گنوا بیٹھے
نجی ٹی وی چینل کے لیے کرائم بیٹ کرنے والے رپورٹر سجاد حیدر مرزا سے بھی 2 بار موبائل چھینا جاچکا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ٹی وی چینل میں بحیثیت ڈرائیور خدمات سرانجام دینے والے یوسف آفریدی بھی ڈکیتوں سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ یوسف آفریدی کا کہنا تھا کہ ‘میں نے کمیٹی ڈال کر موبائل خریدا تھا اور اب دوبارہ موبائل خریدنے کی سکت نہیں ہے’۔
‘وی نیوز’ کو جرائم سے متعلق پشاور پولیس سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق جنوری اور فروری کے دوران 6 ہزار 887 ایف آئی آر درج ہوئیں جن میں قتل، چوری، حادثات، بینک ڈکیتی کے کیسز شامل ہیں لیکن موبائل فون چھیننے اور دوسری رہزنی کی وارداتوں کی تفصیل موجود نہیں۔
اسٹریٹ کرائم کوکم کرنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں، ایس ایس پی آپریشن
ایس ایس پی آپریشن ہارون الرشید نے میڈیا کو بتایا کہ اسٹریٹ کرائم کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہیں اور جن علاقوں میں جرائم کی شرح زیادہ ہے وہاں پرپولیس کا گشت بڑھا دیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہم نے موبائل ایپلی کیشن متعارف کروا دی ہے جس کی مدد سے کوئی بھی دکاندار چوری شدہ موبائل فروخت یا مرمت کرے تو پولیس کو معلومات مل جائے گی۔
ایک سینیئر پولیس افسر نے ‘وی نیوز’ کو بتایا کہ موبائل چھیننے کی وارداتوں میں اضافے کی وجہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی ہے اور چھینے گئے موبائل پڑوسی ملک افغانستان اسمگل کیے جاتے ہیں جبکہ اس کو روکنا پولیس کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
پشاورمیں رہزنی کی بڑھتی وارداتوں کا اعلیٰ عدلیہ میں بھی تذکرہ
پشاور میں رہزنی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کا تذکرہ اعلیٰ عدلیہ میں بھی ہورہا ہے جہاں گزشتہ ہفتے اغوا کے ایک کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس قیصر رشید نے ریمارکس دیے تھے کہ پشاور کو کراچی نہ بننے دیا جائے کیونکہ آئے روز ہونے والے واقعات کی وجہ سے شہریوں میں خوف کی فضا میں اضافہ ہوگیا ہے۔