خوشحال خان خٹک کا صدائے حریت میں گُندھا بلند آہنگ لہجہ ہو یا رحمان بابا کی تصوف و رومانویت میں ڈوبی دل آویز شاعری، جذب و مستی کے یہ دلکش رنگ ایسی مٹی سے پھوٹے ہیں جسے آج دہشت گردی کا سامنا ہے۔
تقریباً چالیس سال قبل افغانستان میں روسی مداخلت کے نتیجے میں ہونے والی جنگ اور ہجرت نے پختونوں کی سماجی اقدار کو متاثر کیا اور ان کی اجتماعی نفسیات پر منفی اثر ڈالا۔
ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ دہشت اور قتل و غارت سے پختونوں کا فطری اور تاریخی طور پر کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں؟
پانچ ہزار سالہ تاریخ تو یہی بتا رہی ہے کہ پختون قوم کے ہاتھ میں بارہا تلوار نظر آئی اور وہ سرخرو بھی ٹھہرےلیکن ایسا ہمیشہ صرف استعماری قوتوں کے خلاف اور اپنی آزادی قائم رکھنے کی خاطر ہوا۔
ورنہ مذہبی لگاؤ، شاعری کا مزاج اور موسیقی کی دلداگی بحیثیت مجموعی اس قوم کو رواداری، احترام انسانیت، مہمان نوازی اور جذبہ ہمدردی سے معمور کرتے آئے ہیں۔
پختون کے باب میں اگر ہم تاریخ سے رجوع کریں تو ایک خوشگوار منظر دکھائی دیتا ہے۔
ہندوستان کی تقسیم سے پہلے جب آمد و رفت کے تیز ترین ذرائع اور مواصلات کا برق رفتار نظام وجود میں نہیں آیا تھا تب اس پسماندگی کے زمانے میں بھی پورے پختون خطے میں (بشمول افغانستان ) شائد ہی کوئی شہر یا گاؤں ایسا ہو جہاں ہندو، سکھ اور عیسائی اقلیت کی صورت میں موجود نہ ہوں۔یہ مذہبی اقلیتیں مسلمانوں کے ساتھ امن و امان سے رہ رہے تھے۔
یہ مثبت معاشرتی اقدار تھیں جس نے محبت، رواداری اور برداشت کو اس حد تک فروغ دیا کہ پورے پختون خطے میں کہیں بھی کوئی ایسا واقعہ تاریخ کا حصہ نہ بن سکا جسے مذہبی دہشت گردی یا عدم برداشت کا عنوان دیا جاسکتا۔
اس مثالی معاشرے میں توازن و اعتدال اس حد تک تھا کہ جداگانہ مذاہب کے باوجود ایک سے مزاج اور روایات کے سبب ایک دوسرے کی خوشی غمی میں بھی باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے۔اس دور میں مذہبی منافرت اور آس پاس منظر میں دہشت اور جنون تو دور کی بات ہے تب یہاں اس مکروہ سوچ سے شناسائی تک نہیں تھی۔
یہی وجہ ہے کہ اسی آسودہ پُر امن اور انتہائی سازگار فضا نے نہ صرف تسلسل کے ساتھ ایک آفاقی شاعری کو جنم دیا بلکہ مہمان نوازی ،برداشت اور سلیقہ مندی بحیثیت مجموعی قومی پہچان بن گئی۔
اس رومان پرور اور پُر امن فضا میں جا بجا دینی و علمی مدارس قائم تھےجو معاشرے میں پُر امن بقائے باہمی، تعاون، احترام انسانیت اور اعتدال کے ضامن بھی تھے۔
اس مثالی معاشرے میں بڑا بگاڑ روس افغان جنگ کے نتیجے میں پیدا ہوا۔اس جنگ نے صدیوں سے قائم ایک معتدل پختون معاشرے کی شاندار تاریخ اور سماجی اقدار کو نہ صرف درہم برہم کر دیا بلکہ اس معاشرے کے بنیادی لیکن مثبت خد و خال کو بھی بہت حد تک مجروح کیا۔
اس جنگ سے ایک طرف خونریزی اور طویل مہاجر برآمد ہوئے تو دوسری طرف بین الاقوامی سازشوں نے پختونوں کے فطری مذہبی جھکاؤ کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے اسے منفی رخ میں موڑ دیا جس سے بعد میں مذہبی تنگ نظری اور دہشت گردی کے عفریت نے جنم لیا۔
اور یہی وہ وقت تھا جس نے ایک پُر امن قوم کے مذہبی رواداری، برداشت اور احترام انسانیت پر مبنی جذبے کو شدید ٹھیس پہنچائی۔تاہم پختون قوم کی اجتماعی فطرت سے متصادم یہ حالات پختون معاشرے کو اپنے فطری مزاج اور جبلت سے یکسر الگ نہیں کر سکے۔
پختونوں کی تاریخ اور نفسیات جاننے والے بخوبی آگاہ ہیں کہ یہ معاشرہ بظاہر جتنا کٹر مذہبی اور سخت گیر دکھائی دیتا ہے درحقیقت ایسا نہیں ہے اور یہ تاریخی حقائق بھی ہیں۔
مثلاً پختون تاریخ کے سب سے بڑے شاعر خوشحال خان خٹک تقریباً چار سو سال پہلے اپنی شاعری میں جنسیت جیسے حساس موضوع کو اس وقت مرکزی حیثیت دیتے رہے جب دوسری زبانوں کے بڑے شعراء اس موضوع سے یا تو واقف نہیں تھے یا اسے بیان کرنے کی جرأت نہیں کر سکے۔
لیکن اس سے بھی زیادہ حیران کن پہلو یہ ہے کہ نہ تو خوشحال خٹک کو اس معاملے میں کسی مذہبی جذباتیت کا سامنا ہوا اور نہ ہی ان کی مقبولیت پر کوئی اثر پڑا۔
بلکہ ایسے موضوعات کو ہمیشہ خوشحال خان خٹک کی فکری گہرائی اور عالمانہ قدر و منزلت اور انفرادیت کے ساتھ دیکھا گیا۔
اسی طرح پانچ سو سال پہلے مذہبی حوالے سے کٹر ملائیت اور استعماری قوتوں کے شدید مخالف لیکن انتہائی روشن فکر روحانی پیشوا پیر روخان (پیر روشن ) استعمار اور بالا دست قوتوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود بھی عوامی مقبولیت اور اثر و رسوخ سے کبھی محروم نہیں ہوئےبلکہ پختون تاریخ میں آج بھی وہ ایک قابل فخر استعارے کے طور پر جگمگا رہے ہیں۔
کہنے کو تو پختون خطہ ایک عرصے سے مذہبی تنگ نظری اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والی دہشت گردی کا شکار ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس مکروہ سوچ اور عمل کا تعلق بھی پختون قوم ہی سے ہے۔
کیونکہ اس معاشرے کی تاریخ، روایات، سماجی خد و خال، طرز معاشرت اور اجتماعی نفسیات ہرگز اس کراہت بھرے منظر نامے سے مطابقت نہیں رکھتے جس نے پختونوں کی شاندار تاریخ اور پُر امن خطے پر ایک عرصے سے پنجے گاڑھ رکھے ہیں اور ایک معصوم اور روایت پسند قوم کی تابناک تاریخ کو بھی داغدار کر دیا ہے۔