ناسا کا خلا میں سورج سے کئی گنا زیادہ توانائی پیدا کرنے والی ریڈیائی لہروں کو دریافت کرنے کا دعویٰ

اتوار 18 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ناسا کے سائنس دان خلا میں ریڈیائی لہروں کے رونما ہونے والے واقعات کو سمجھنے کے قریب پہنچ گئے ہیں، خلائی ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی 2 ایکسرے دوربینوں نے ایک مردہ ستارے کو دریافت کر لیا ہے جو ریڈیائی لہروں کے تیزی سے پھٹنے کا باعث بن رہا ہے۔

نیچر نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق ریڈیائی لہروں کے پھٹنے کا دورانیہ صرف ایک سیکنڈ تک جاری رہا اور اس سے اتنی توانائی خارج ہوئی جتنی ایک سال میں سورج سے ملتی ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مردہ ستارے کی مختصر روشنی نے کائنات میں زیادہ افراتفری والے دھماکے پیدا کرنے کے بجائے لیزر جیسی بیم تشکیل دی۔

ناسا کے ابتدائی مشاہدے سے قبل سائنسدان اکثر یہ تعین کرنے سے قاصر رہتے تھے کہ ریڈیائی لہریں کہاں سے آتی ہیں کیونکہ وہ انتہائی مختصر وقت کے لیے رونما ہوتی ہیں اور اکثر ہماری اپنی کہکشاں سے باہر پیدا ہوتی ہیں۔

لیکن 2020 میں زمین کی کہکشاں میں تباہ ہونے والے ستارے کی گرتی ہوئی باقیات، جسے میگنیٹر کہا گیا ہے، نے ایک مختصر مگر انتہائی روشن ریڈیائی لہر پیدا کرنے کا سبب بنا۔

اکتوبر 2022 میں اسی مقناطیس سے دوسرا تیز ریڈیائی دھماکہ ہوا۔ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر ناسا کی 2 دوربینیں این آئی سی ای آر یا نیوٹران اسٹار انٹیریئر کمپوزیشن ایکسپلورر اور زمین کے نچلے مدار میں نیو اسٹار یا نیوکلیئر سپیکٹرواسکوپک ٹیلی سکوپ آرے نے ان مختصر واقعات کو ریکارڈ کیا ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تازہ ترین دھماکہ 2 خرابیوں کے درمیان اس وقت ہوا جب ایک مقناطیس اچانک تیزی سے گھومنا شروع ہو گیا۔ ایک اندازے کے مطابق یہ مقناطیس تقریباً 12 میل کی دوری پر ہے اور ایک سیکنڈ میں تقریباً 3.2 گنا زیادہ گھوم رہا تھا، جس کا مطلب ہے کہ یہ تقریباً 7،000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہا تھا۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ مقناطیس کی رفتار صرف 9 گھنٹوں میں اصل رفتار سے اچانک کم ہو گئی ۔

تائیوان کی نیشنل چانگہوا یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے ماہر فلکیات چن پنگ ہو کا کہنا ہے کہ ‘عام طور پر جب کسی سیارے پر کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو مقناطیس کو اپنی معمول کی رفتار پر واپس آنے میں ہفتوں یا مہینوں کا وقت لگتا ہے۔

جب سائنسدان تیزی سے ریڈیائی دھماکوں کی وجوہات کے بارے میں متغیرات کی گہرائی میں جاتے ہیں تو انہیں ماننا پڑتا ہے کہ ابھی بہت ساری تحقیق کی جانی باقی ہے۔ چن پنگ ہو کاکہنا تھا کہ ’میرے خیال میں ہمیں اس راز کو مکمل کرنے کے لیے ابھی بھی بہت زیادہ اعداد و شمار کی ضرورت ہے‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp