صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع لوئر دیر سے تعلق رکھنے والے 40 سالہ احمد کا خاندان پچھلی 3 نسلوں سے تیر کمان بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
اس کمان کو ’باجوڑے لیندا‘ کہا جاتا ہے اور اس سے نشانے بازی کا صدیوں پرانا کھیل ’موخہ‘ کھیلا جاتا ہے جو خیبر پختونخوا کے کچھ اضلاع میں آج بھی مقبول ہے۔
مزید پڑھیں
’ہمارا خاندان 3 نسلوں سے باجوڑے لیندا بنا رہا ہے‘
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے احمد نے بتایا کہ ان کا خاندان 3 نسلوں سے ’باجوڑے لیندا‘ بنا رہا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’موخہ‘ نیزہ بازی کی ہی ایک قسم سمجھی جاتی ہے اور انہوں نے لیندے بنانے کا کام اس کھیل کے شوقین افراد کے پر زور اصرار پر شروع کیا تھا کیونکہ ان کے دادا اور والد کی وفات کے بعد یہ ہنر ان کے سوا کسی کے پاس نہیں تھا۔
احمد کے بقول اس مخصوص تیر کمان کی تیاری میں جانوروں کے سینگوں، چربی اور کھال کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ’احمد کا خاندان اس مخصوص تیر کمان کو گھر میں ہی تیار کرتا آرہا ہے‘۔
اس تیر کمان کو تیار کرنے کے لیے جو سینگ استعمال ہوتے ہیں وہ عموماً کھلاڑی خود خرید کر لاتے ہیں۔ جانوروں کے پٹھے ابال کر باریک دھاگوں کی صورت میں چربی تیار کی جاتی ہے۔ پھر پلاسٹک پگھلا کر ان پٹھوں پر لگائی جاتی ہے۔ اس کے بعد کمان پر سینگ چڑھا کر انہیں گرم کر کے سخت کیا جاتا ہے۔ پھر مضبوطی کے لیے مزید پگھلا ہوا پلاسٹک لگایا جاتا ہے۔
’یہ کھیل مغل دور میں کھیلا جاتا تھا‘
احمد نے بتایا کہ یہ کھیل مغل دور میں کھیلا جاتا تھا اور بعد میں یہ مختلف علاقوں تک مشہور ہوگیا۔ اس کھیل میں کھلاڑیوں کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ ہر ٹیم سے کھلاڑی 40 مرتبہ نشانے لگاتا ہے۔ جو ٹیم سب سے زیادہ درست نشانے لگا لے، وہ فاتح قرار پاتی ہے۔
اس کھیل کو کھیلنے کے لیے باقاعدہ انتظامات کیے جاتے ہیں۔ کھیل کے دوران ڈھول بجایا جاتا ہے اور تماشائیوں کی باقاعدہ خاطر تواضع بھی کی جاتی ہے۔ عام طور پر یہ کھیل حجروں میں کھیلا جاتا ہے۔
احمد نے مزید بتایا کہ یہ کمان بنانے کا کام سخت محنت طلب ہے اور خیبر پختونخوا میں اس کے کاریگر ختم ہو گئے ہیں۔ ان کو ڈر ہے کہ اگر اسی طرح سے مہنگائی رہی اور حکومت نے بھی توجہ نہ دی تو نا صرف اس علاقائی کھیل کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ وہ کمان بنانے کا کام بھی جاری نہ رکھ سکیں گے۔