عالمی ریٹنگز ایجنسی فچ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عام انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی غیر یقینی سیاسی صورت حال پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈز ( آئی ایم ایف ) کے درمیان معاہدے کی کوششوں کو پچیدہ بنا سکتی ہے اور مسلسل سیاسی عدم استحکام آئی ایم ایف کے ساتھ کسی بھی بات چیت کو طول دے سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
معیشت سے متعلق عالمی ریٹنگ ایجنسی ’فچ‘ نے پیر کو رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کے نتائج سامنے آنے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غیر یقینی صورت حال پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ فنانسنگ معاہدے کے حصول کی کوششوں کو پیچیدہ بنا سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) کے درمیان مارچ 2024 میں ختم ہونے والے اسٹینڈ بائی انتظامات (ایس بی اے) کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں غیر یقینی سیاسی صورت حال کو بہتر کیا جائے۔
رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ نیا معاہدہ ملک کے کریڈٹ پروفائل کی کلید ہے اور فرض کریں کہ کچھ مہینوں کے اندر یہ معاہدہ نہ کیا گیا یا ملک کے کریڈٹ پروفائل کو محفوظ کرنے میں ناکامی ہوئی تو پاکستان پر بیرونی لیکویڈیٹی کے دباؤ میں اضافہ ہو گا اور ڈیفالٹ کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ مہینوں میں پاکستان کی کریڈٹ پوزیشن میں بہتری آئی ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 9 فروری 2024 تک 8.0 ارب ڈالر کے خالص زرمبادلہ کے ذخائر ظاہر کیے ہیں، جو 3 فروری 2023 کو 2.9 ارب ڈالر کی کم ترین سطح سے زیادہ ہیں۔
تاہم یہ متوقع بیرونی فنڈنگ کی ضروریات کے مقابلے میں کم ہے، جس کے بارے میں توقع کی جا سکتی ہے کہ کم از کم اگلے چند سالوں تک زرمبادلہ کے حالیہ ذخائر سے تجاوز کرتے رہیں گے۔
فچ کا کہنا ہے کہ ہمارا اندازہ ہے کہ پاکستان نے جون 2024 (مالی سال 24) کو ختم ہونے والے مالی سال کی پہلی 2 سہ ماہی میں اپنے 18 ارب ڈالر کے فنڈنگ منصوبے کا نصف سے بھی کم پورا کیا، جس میں 2 طرفہ قرضوں کے معمول کے رول اوورز شامل نہیں تھے۔
بیرونی مالی اعانت کا حصول نئی حکومت کا اولین ایجنڈا ہو گا
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خودمختار لیکن کمزور بیرونی کریڈٹ پوزیشن کا مطلب یہ ہے کہ کثیر الجہتی اور دوطرفہ شراکت داروں سے مالی اعانت حاصل کرنا اگلی حکومت کے ایجنڈے میں سب سے اہم مسائل میں سے ایک ہوگا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتخابات میں عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے وابستہ امیدواروں کی کامیابی کے باوجود لگتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی اتحادی حکومت بنائیں گی۔
اس لیے ’ ایس بی اے ‘ کے معاہدے پر بات چیت کرنا اور اس کے تحت پالیسی وعدوں پر عمل کرنا نہ صرف آئی ایم ایف سے بلکہ دیگر بیرونی مالی امداد کے لیے انتہائی اہم ہوگا اور یہی ملک کی طویل المدتی اقتصادی سمت پر گہرا اثر ڈالے گا اور اس کا تعین کرے گا۔
رپورٹ کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے نئے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے امکانات فی الحال محدوم اور ان میں مشکلات نظر آ رہی ہیں ۔ موجودہ ایس بی اے ایک عبوری پیکج ہے اور ہمیں یقین ہے کہ نئی حکومت کا کوئی بھی انتظام سخت شرائط کے ساتھ سامنے آئے گا، جس کی پاکستان میں موجود مفاد پرست عناصر مزاحمت کر سکتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کے معاشی چیلنجوں کی شدید نوعیت اور محدود متبادلات کو دیکھتے ہوئے کسی بھی مزاحمت پر قابو پا لیا جائے گا۔
مسلسل سیاسی عدم استحکام آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کو طول دے سکتا ہے
رپورپ کے مطابق مسلسل سیاسی عدم استحکام آئی ایم ایف کے ساتھ کسی بھی بات چیت کو طول دے سکتا ہے اور دیگر کثیر الجہتی اور دوطرفہ شراکت داروں کی امداد میں بھی تاخیر پیدا کر سکتا ہے، یا اصلاحات پر عمل درآمد میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
فچ کا کہنا ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ جو بھی حکومت اقتدار سنبھالے گی وہ آئی ایم ایف کے ساتھ نسبتاً جلدی بات چیت کرے گی، لیکن اگر سیاسی استحکام برقرار رہا تو معاہدے سے متعلق خطرات زیادہ رہنے کا امکان ہے۔
تحریک انصاف کو نظر انداز کرنا عوام میں عدم اطمینان پیدا کرے گا
اگر پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی )کو نظر انداز کیا گیا تو عوامی عدم اطمینان میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے کیوں کہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے لیے مضبوط عوامی حمایت سامنے آئی ہے۔
فچ نے رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کی حکومتوں کا آئی ایم ایف کے پروگراموں کو مکمل کرنے کا ریکارڈ خراب رہا ہے – آئی ایم ایف کے 24 پروگراموں میں سے نصف سے بھی کم نے دستیاب فنڈز کا 75 فیصد سے زیادہ تقسیم کیا ہے۔
تاہم موجودہ ایس بی اے کے تحت اہداف پر منصفانہ پیش رفت ہوئی ہے۔ فچ نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اصلاحات کے لیے پاکستان کے اندر مضبوط اتفاق رائے موجود ہے، جس سے حکومت کے انتظامات پر عمل درآمد میں مدد مل سکتی ہے۔
بیرونی لیکویڈیٹی کے خطرات دوبارہ بڑھ سکتے ہیں
رپورٹ کے مطابق اگر بیرونی لیکویڈیٹی کے دباؤ میں کمی آتی ہے تو پالیسی کے خطرات وقت کے ساتھ ساتھ دوبارہ بڑھ سکتے ہیں، یا تو ابتدائی اصلاحات کی کامیابیوں یا پاکستان سے باہر ہونے والی پیش رفت کے نتیجے میں، جیسے تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی وغیرہ، اس سے معاشی اور بیرونی عدم توازن میں نئے سرے سے اضافہ ہو سکتا ہے۔
فچ کا کہنا ہے کہ ’ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا بیرونی کریڈٹ اس وقت تک کمزور رہے گا جب تک کہ وہ ایک ایسا نجی شعبہ تیار نہیں کرتا جو زیادہ سے زیادہ برآمدی آمدنی پیدا کر سکے، ایف ڈی آئی کو راغب کر سکے یا درآمدات پر انحصار کو کم نہ کر سکے۔