پشاور میں اپنی ہی چوری شدہ گاڑی خریدنے کا حیران کن واقعہ

پیر 19 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پشاور کے رہائشی 40 سالہ آفتاب احمد کی گاڑی گزشتہ منگل کو پشاور ہائی کورٹ کے باہر سے چوری ہو گئی تھی جو انہوں نے طویل بار گین اور کوششوں کے بعد کار چوروں سے خرید لی۔

پیشے کے لحاظ سے صحافی آفتاب احمد ایک بین الاقوامی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں اور وہ 13 فروری کو کوریج کے سلسلے میں اپنی گاڑی میں پشاور ہائی کورٹ گئے تھے جہاں سے ان کی گاڑی چوری ہو گئی تھی۔

گاڑی چوری کی ایف آئی آر اور پولیس تفتیش

آفتاب احمد نے وی نیوز کو بتایا کہ 13 فروری کو انہوں نے تحریک انصاف کی جانب سے کے پی حکومت سازی پر قانونی رائے لینے کے لیے سینئیر قانون دان سے وقت لیا تھا جس کے لیے وہ دن ایک بجے کے قریب پشاور ہائی کورٹ پہنچے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ہائی کورٹ کے سامنے مرکزی سڑک کے کنارے گاڑی کھڑی کرکے وہ خود اندر گئے اور انٹرویو لینے کے بعد 3 بجے واپس ائے تو گاڑی وہاں موجود نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ‘مجھے لگا کہ شاید پولیس والے گاڑی لفٹر کے ذریعے اٹھا کر لے گئے ہوں گے اس لیے میں ٹریفک ہیڈ کوارٹر گیا لیکن گاڑی وہاں نہیں تھی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹریفک ہیڈ کوارٹر کے بعد وہ شرقی تھانے پہنچے جہاں پولیس نے گاڑی چوری کی ایف آئی آر درج کر لی اور تفتیشی افسر نے ان سے کہا کہ چوں کہ 5 بج چکے ہیں اور دفاتر بند ہو چکے ہیں تو اب تفتیش کا آغاز اگلے روز سے ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ وہ دوسرے روز تفتیش افسر کے ساتھ جائے وقوعہ پر گئے جہاں پولیس نے خاکہ بنایا اور سی سی ٹی وی کیمروں کی تلاش شروع کر دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلے ہم فوٹیجز کے لیے ہائی کورٹ گئے جہاں اجازت نہیں ملی پھر ایم پی اے ہاسٹل گئے لیکن وہاں بھی 2 گھنٹے چیک کرنے کے بعد کچھ نہیں ملا۔

آان کا کہنا تھا کہ ابتدا سے ہی وہ پولیس تفتیش سے تنگ ہونا شروع ہو گئے اور انہیں اندازہ ہوگیا کہ اس طرح کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے۔

گاڑی چور اور سخاکوٹ

افتاب احمد نے بتایا کہ پہلے روز ہی رات کو انہیں ایک نا معلوم نمبر سے فون آیا تھا اور کالر نے ان سے پوچھا کہ فلاں گاڑی آپ کی ہے پھر ان کے ہاں بولنے پر اس نے کہا کہ گاڑی اور اس کے اندر کا سامان محفوظ ہے آپ 9 لاکھ روپے لے کر سخاکوٹ آجائیں۔

سخاکوٹ خیبر پختونخوا میں مالاکنڈ کا حصہ ہے جو مردان سے ملحقہ علاقہ ہے۔ پورے صوبے میں یہ تاثر عام ہے اگر آپ کی کوئی چیز چوری ہوگئی ہو اور کہیں بھی نہ مل رہی ہو تو وہ سخاکوٹ سے ضرور مل جائے گی۔ یہ ایک پسماندہ علاقہ ہے جو عرصہ دراز سے ہی کار چوروں، منشیات اسمگلرز اور اجرتی قتلوں کا بمینہ گڑھ مانا جاتا ہے۔ مقامی صحافیوں کے مطابق علاقے کے بدمعاش گروپوں کے سامنے حکومت اور انتظامیہ تاحال بے بس ہے۔

آفتاب احمد نے بتایا کہ سخاکوٹ کا نام سنتے ہی لگا کہ گاڑی ملنے کے امکانات پیدا ہوچکے ہیں۔ انہوں کہا کہ جس نمبر سے فون آیا تھا انہوں نے وہی نمبر پولیس کو دے کر ریکارڈ نکالوایا تو پتا لگا کہ وہ پنجاب کے کسی دور افتادہ گاؤں کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے پولیس تفتیش سے مایوس ہوکر خود ہی گاڑی کو ڈھونڈنے کا ادارہ کیا اور 2 دوستوں کو ساتھ لے کر سخاکوٹ روانہ ہو گئے۔

مڈل مین کا کردار

انہوں نے کہا کہ چوں کہ سخاکوٹ جانا انہیں خطرے سے خالی نہیں لگا تو انہوں نے جانے سے پہلے ایک صحافی دوست کی مدد سے وہاں کے ایک بااثر شخص سے رابطہ کیا اور ان کی طرف روانہ ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم موٹروے پر تھے تو کار چوروں نے دوبارہ رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا سوچا ہے جب ہم نے انہیں سخاکوٹ جانے کا بتایا تو انہوں نے کس کے پاس جاؤگے پوچھ کر فون بند کردیا‘۔

آفتاب احمد نے بتایا کہ مقامی شخص کے ذریعے وہ سخاکوٹ کے گروپ کے حجرے میں پہنچ گئے جہاں ابتدائی طور پر ان پر کوئی توجہ نہیں دی گئی لیکن پھر ریفرینس کے بنیاد پر بات آگے بڑھی۔ انہوں نے بتایا کہ مقامی گروپ نے انہیں چوروں سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا جس کے بعد چوروں نے 2 لاکھ روپے کم کرکے اپنی ڈیمانڈ 7 لاکھ روپے کردی لیکن وہ 4 لاکھ روپے پر ڈٹ گئے تھے اور سی بارگیننگ میں 3 گھنٹے صرف ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ چوروں کا مؤقف تھا کہ گاڑی میں قیمتی سامان بھی ہے لہٰذا 7 لاکھ روپے سے کم نہیں کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اس بات بن نہیں سکی اور وہ واپس آگئے لیکن فون پر رابطہ جاری رہا اور آخر کار معاملہ ساڑھے 6 لاکھ روپے پر طے ہوگیا۔

پیسے کہاں اور کیسے دیے؟

آفتاب احمد نے بتایا کہ مقامی گروپ کے سربراہ نے ساڑھے 6 لاکھ روپے میں فیصلہ کرادیا تھا اور کہا کہ پہلے ادائیگی کے بعد گاڑی پشاور میں مل گی۔

انہوں نے کہا کہ وہ جس شخص کے ذریعے گئے اسی کو لے کر اگلے روز دوبارہ مقامی گروپ کے حجرے میں پہنچ گئے اور پیسے ان کے حوالے کر دیے تاہم انہیں اس کی کوئی رسید یا وصولی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ انہوں نے بتایا کہ 50 ہزار روپے اس گروپ نے آپس میں تقسیم کیے اور 10 ہزار روپے ہمارے ایک ساتھی کو بھی دیے جسے وہ مڈل مین سمجھ رہے تھے جو بعد میں اس ساتھ نے انہیں واپس کر دیے۔ چوروں کا کہنا تھا کہ وہ یہ کام ایمان داری سے کرتے ہیں اور اس میں سب کچھ اعتبار اور زبان پر ہوتا ہے۔

آفتاب نے بتایا کہ دوسرے روز پیسے وصول کرنے کے بعد ان کے لیے کھانے کا انتظام کیا گیا اور روایتی تکے منگوائے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ پیسے لینے کے بعد انہیں کہا گیا کہ انہیں گاڑی اگلے روز پشاور میں سامان سمیت گاڑی مل جائے گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پیسے وہ ان لوگوں کو دے چکے تھے اس لیے پریشانی لاحق رہی کہ پتا نہیں گاڑی انہیں ملے گی بھی یا نہیں۔

گاڑی کیسے واپس کی گئی؟

آفتاب نے کہا کہ مڈل مین کے وعدے کے مطابق جمعے کے روز ان سے دوبارہ رابطہ کیا اور پشاور کے علاقے قمر دین گھڑی کا بتایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ قمر دین گھڑی پہنچے تو 30 منٹ تک انتظار کرکے چوروں سے دوبارہ رابطہ کیا تو انہیں کہا گیا کہ اسکیم چوک آجاؤ۔ انہوں نے کہا کہ جب اسکیم چوک پہنچے تو وہاں بھی کافی دیر تک انتظار کرنے کے بعد چوروں نے رابطہ کیا گیا اس پر انہیں کہا گیا کہ پشاور کے نواحی علاقے زنگلی پہنچو تاہم اس میں جمعے کی نماز کا وقت ہو گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ چوروں نے انہیں کہا کہ جلدی پہنچ کر گاڑی لے جاؤ۔

آفتاب نے بتایا کہ جس بتائی ہوئی جگہ وہ پہنچے تو وہاں ایک مارکیٹ میں گاڑی کھڑی تھی جبکہ وہاں کوئی شخص موجود نہیں تھا۔

آفتاب نے بتایا کہ گاڑی لینے کے بعد انہوں نے پولیس کو اطلاع دی اور ایف آئی آر واپس لینے کی درخواست دے دی۔

کیا چور حجرے میں موجود تھا؟

آفتاب نے بتایا کہ جب تک وہ حجرے میں بیٹھے ہوتے تھے تو چور رابطہ نہیں کرتے تھے لیکن وہاں سے نکلتے ہی رابطہ شروع کردیتے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جس دن وہ پیسے دینے گئے تھے اس دن انہیں لگا تھا کہ چور بھی حجرے میں ہی موجود ہے اور ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی کھارہا ہے۔

انہوں نے کاہ کہ وہ جب کھانا کھا رہے تھے تو اس دوران وہاں موجود ایک نوجوان نے باتوں باتوں میں کہا اپ کی گاڑی کی حالت کافی خراب ہے لیکن یہ کہتے ہوئے وہ چپ ہو گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ حجرے والے یہ تاثر دے رہے تھے کہ وہ چور نہیں بلکہ صرف رابطہ کر رہا ہے اور اس میں اس کا اور کوئی کردار نہیں ہے۔

کیا گاڑی میں پڑا سامان بھی واپس ملا؟

آفتاب احمد نے بتایا کہ وہ کیمرے سمیت تمام سامان ہر وقت گاڑی میں ساتھ رکھتے ہیں تاکہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں انہیں آسانی ہو۔ انہوں نے کہا کہ گاڑی چوری سے پہلے ڈی ایس ایل آر، کالر مائک، ہارڈ ڈسک اور دیگر سامان بھی اسی میں موجود تھا جس کی ک مالیت 5 لاکھ روپے کے قریب تھی۔ انہوں ے بتایا کہ کہا چوروں نے وعدہ کیا تھا کہ ایک کاغذ بھی ادھر ادھر نہیں کریں گے اور تمام سامان بھی واپس کردیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ سامان گاڑی میں ویسے ہی رکھا تھا لیکن ایک کالر مائک نہیں تھا جس کی قیمت ایک لاکھ کے قریب تھی۔

انہوں نے بتایا کہ گاڑی بھی پہلے جیسی حالت میں ہی تھی اور لگتا تھا کہ دروازے بھی چابی کے ذریعے ہی کھولے گئے تھے اور اسی طرح صفائی سے اسٹیرئنگ لاک بھی کھولا گیا تھا۔

چوروں کو فون نمبر کیسے ملا، رابطہ کیسے کرتے تھے؟

آفتاب نے بتایا کہ ان کا وزٹنگ کارڈ گاڑی میں تھا جس کے ذریعے ان سے رابطہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ چور مسلسل مختلف نمبروں سے رابطہ کرتے تھے اور انٹرنیٹ کے ذریعے کال کیا کرتے تھے اور ایک نمبر سے دوبارہ رابطہ نہیں کیا جاتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ چوروں کا ایک منظم نیٹ ورک ہے جو جدید ٹیکنالوجی بھی استعمال کرتا ہے۔

سخاکوٹ اور مقامی گروپس

سخاکوٹ گاڑی چوری، اغوا برائے تاوان، منشیات اور زمینوں پر قبضے کی وجہ سے بدنام ہیں اور وہاں کے گروپس کے پورے ملک میں کارندے موجود ہیں۔ سخاکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر صحافی نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ یہ گروپس آج نہیں بلکہ دہائیوں سے سرگرم ہیں اور خفیہ اداروں سمیت پولیس کو بھی ان کے بارے میں سب معلوم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت سخاکوٹ میں 3 گروپس نواب، شاہ اور گجر گروپ کے نام سے کارروائیاں کرتے ہیں۔

آفتاب نے بتایا کہ جس گروپ کے ہاں وہ گئے تھے ان کے پاس اپنی مکمل سیکیورٹی تھی۔ گروپ کا گھر ایک پہاڑی کے ساتھ تھا جس کے اوپر جدید اسلحہ لے کر مسلح گارڈز مورچہ زن تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ان گروپس کے آباؤ اجداد بھی یہی کام کرتے تھے اور یہ اسے اپنا کاروبار ہی سمجھتے ہیں جبکہ ان کے سامنے انتظامیہ بے بس ہے۔

سخاکوٹ نیم قبائلی علاقہ ہے جہاں پولیس کی جگہ لیویز فورس ہے جو ڈپٹی کمشنر کی زیر نگرانی ہے اور جو مقامی گروپس کے سامنے بے بس ہے۔ وہاں کا بچہ بچہ بھی بدمعاش ہے اور کوئی اونچی اواز میں بھی بات کرلے تو وہ جواباً کہتا ہے کہ ’میں سخاکوٹ کا ہوں‘۔

منشیات اور زمینوں پر قبضہ

صحافی نے بتایا کہ سخاکوٹ کے گروپس پورے ملک میں سرگرم ہیں اور گاڑی کہیں بھی چوری ہوئی ہو تو ڈیل سخاکوٹ میں ہی ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ لوگ گاڑیوں کو توڑ کر کباڑ میں فروخت کرتے ہیں اور ان کا ایک منظم نیٹ ورک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ گروپس اب کام پس پردہ کرتے ہیں اور قانونی کارروائی اور چھاپوں سے بچنے کے لیے خود سامنے نہیں آتے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ مڈل مین بن کر بارگین کرتے ہیں اور بھتہ وصول کرتے ہیں۔

صحافی نے کہا کہ یہ گروپس زمینوں پر قبضے کرکے اسے فروخت کرتے ہیں جبکہ طاقت کے زور پر زمینوں پر قبضہ بھی خالی کراتے ہیں جو پولیس بھی نہیں کر سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ سخاکوٹ میں اب ہر جگہ آئس، ہیروئن اور دیگر منشیات کھلم کھلا فروخت ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان گروپوں کے حجروں کے باہر ان کی اپنی منشیات کی دکانیں ہوتی ہیں جہاں کھلم کھلا فروخت ہوتی ہے۔

منشیات کے خلاف آواز بلند کرنے والے پی ٹی آئی کارکن کا قتل

چند سال پہلے سخاکوٹ میں تحریک انصاف کے ورکر اور مقامی سماجی کارکن منشیات کے خلاف مضبوط آواز بن کر سامنے ائے تھے اور احتجاج کرکے منشیات ڈیلروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔

انہیں بعد میں قتل کردیا گیا تھا اور صوبے اور مرکز میں حکومت ہونے کے باوجود بھی تحریک انصاف اپنے ورکر کے قتلوں کو گرفتار نہ کر سکی تھی۔ قتل کے بعد پورے علاقے میں خوف کا ماحول پیدا ہو گیا اور اب کوئی بھی منشیات کے خلاف اواز نہیں اٹھاتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp