خیبرپختونخوا کے علاقے حسن خیل میں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک طرف تعلیم دشمن عناصر دہشتگردی کے ذریعے نئی نسل کو تعلیم کے زیور سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری جانب حکومت کی بھی اس اہم معاملے پر کوئی توجہ نہیں۔
’ہمارے علاقے میں طویل عرصے کے بعد مڈل سیکشن شروع کیا گیا جس کی وجہ سے میں بہت خوش تھی کہ اب میں بھی تعلیم حاصل کرلوں گی لیکن افسوس ہماری امید دوبارہ ختم ہوگئی‘۔
یہ الفاظ بوڑہ سب ڈویژن حسن خیل سے تعلق رکھنے والی نسا کے ہیں۔ نسا کہتی ہیں کہ جب علاقے میں طویل عرصہ کہ بعد مڈل سیکشن شروع ہوا تو گھر والوں نے مجھے منع کیا کہ ٹیچرز نہیں آئیں گی، پڑھائی نہیں ہوگی۔ گھر والے اسکول میں داخلہ لینے پر راضی نہیں تھے لیکن میں خوش تھی اور والدین کو کہاکہ میں آگے پڑھوں گی اسکول نزدیک ہی ہے کچھ نہ کچھ تو سیکھ ہی لوں گی۔ یوں میں نے داخلہ لے لیا۔
یاد رہے کہ بہرام شاہ اسکول تاتوخیل بوڑہ سب ڈویژن حسن خیل بدامنی کے دوران بم دھماکے سے تباہ ہوا تھا۔ حکومت کی جانب سے صوبے میں سیکنڈ شفٹ اسکولز منصوبے کے بعد تاتوخیل بہرام شاہ اسکول میں بھی دوسرے ٹائم میں مڈل اسکول شروع کیا گیا لیکن استانیوں کو جب 10 ماہ تک تنخواہ نہیں ملی تو انہوں نے احتجاجاً اسکول کو بند کردیا۔
اسکول سال ختم ہونے سے پہلے بند کردیا گیا، نسا
نسا کہتی ہے کہ شروع میں اسکول میں تعداد کم تھی لیکن بعد میں تعداد 40 تک ہوگئی تھی۔ 10 مہینوں میں بہت پڑھائی ہوئی کیونکہ ٹیچرز ہمارے مقامی علاقے سے تھیں جن کو یہ احساس تھا کہ بوڑہ گاؤں میں تعلیمی پسماندگی موجود ہے اس لیے محنت کرتی تھیں اور ہمیں پڑھاتی تھیں، اور ہم ان کی پڑھائی سے مطمئن تھے۔
انہوں نے بتایا کہ اچانک ہماری امید پھر سے ختم ہوگئی اور اسکول سال ختم ہونے سے پہلے بند کردیا گیا۔ ہم پر دوبارہ تعلیم کے دروازے بند کردیے گئے۔ ٹیچرز کے پاس گئے اور وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے احتجاجاً اسکول بند کردیا ہے کیونکہ ہمیں بھی حق نہیں دیا جارہا اس لیے یہ اقدام اٹھانا پڑا۔
نسا کہتی ہیں کہ ہماری پڑھائی جاری تھی ہم نے اتنا کچھ سیکھا تھا کہ پچھلے 5 سالوں میں بھی اتنا نہیں سیکھا۔ اسکول کی طالبات بہت خوش تھیں اور انتہائی شوق سے دور دراز کے گاؤں سے پڑھنے آتی تھیں لیکن شاید ہم قبائل اتنے خوش قسمت نہیں ہیں کہ ہمیں حکومت تعلیم اور ترقی دے۔
’محکمہ تعلیم نہیں چاہتا کہ ہم قبائل اندھیروں سے نکلیں‘
نسا کہتی ہیں کہ کاش ہم سالانہ امتحان تو دیتے، لیکن ہم نے جو محنت کی تھی وہ ضائع ہوگئی۔ اسکول بند ہونے کے دوران محکمہ تعلیم نے کوئی ایکشن نہیں لیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ چاہتے ہی نہیں کہ ہم قبائل اندھیروں سے نکلیں۔
نسا نے کہاکہ علاقے میں فوجی آپریشن کے دوران اسکول بم بلاسٹ سے تباہ ہوگیا تھا جس کے 15 سال کے بعد مڈل سیکشن شروع کیا گیا۔ ہم محکمہ تعلیم سے درخواست کرتے ہیں کہ بوڑہ میں مڈل سیکشن دوبارہ شروع کیا جائے۔ ٹیچرز کے مسائل حل کیے جائیں اور مقامی ٹیچرز کو ہائیر کیا جائے تاکہ علاقے میں تعلیمی پسماندگی ختم ہو۔
واضح رہے کہ خیبرپختونخوا کے اسکولوں میں سیکنڈ شفٹ پروگرام ستمبر 2021 میں شروع کیا گیا جس کا مقصد تعلیمی شرح کو بڑھانے، دور دراز علاقوں میں طلبہ کی تعلیم پر توجہ دینے یعنی ڈراپ آؤٹ کے تناسب کو کم کرنے اور زیادہ سے زیادہ بچوں کو تعلیم دینا ہے۔ تاہم مذکورہ اسکول کی طرح کئی اسکولز کے اساتذہ تنخواہوں سے محروم ہیں۔
مدرسے گئی اور والدین کو تعلیم کی اہمیت بارے بتایا، معلمہ شمائلہ آفریدی
سیکنڈ شفٹ اسکول میں پڑھانے والی شمائلہ آفریدی کہتی ہیں کہ جب ان کو معلوم ہوا کہ یہاں مڈل تک بچیاں پڑھیں گی تو وہ گاؤں کے ہر مدرسے گئیں جہاں انہوں نے لڑکیوں کو تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے بتایا اور ان کو کہا کہ وہ اسکول میں داخلہ لیں۔
انہوں نے کہاکہ شروع میں صرف 18 طالبات تھیں لیکن اسکول میں پڑھائی کو دیکھتے ہوئے گاؤں کے لوگوں کا ان پر بھروسہ بڑھ گیا اور تعداد 40 تک پہنچ گئی۔ پھر کچھ ہی وقت میں دوسری ٹیچر بھی آگئی۔
’ہم دونوں علاقائی ٹیچرز تھیں، مجھے ایسا لگا کہ اب علاقے میں والدین اپنی بچیوں کو ضرور پڑھائیں گے لیکن یہ صرف میرا خواب ہی ثابت ہوا‘۔
شمائلہ آفریدی کہتی ہیں کہ انہوں نے باہر اچھی جاب چھوڑ کر علاقے کے اسکول میں پڑھانے کو ترجیح دی تاکہ یہاں کی بچیاں پڑھ سکیں لیکن ان کو معلوم نہیں تھا کہ ان کی مہینوں کی محنت رائیگاں چلی جائے گی۔
’آپ تنخواہ کا کیوں پوچھتی ہو‘
انہوں نے کہاکہ 10 مہینے گزر گئے جب بھی ایس ڈی ای او آتی تھی تو ہم تنخواہ کا پوچھتے لیکن وہ ہمیں کہتی کہ اتنا ٹائم تو نہیں ہوا ہے آپ تنخواہ کا کیوں پوچھتی ہو، وہ ہمیں اپنا حق مانگنے پر ٹوکتی اور یہی کہتی کہ مل جائے گی۔
ان کے مطابق 3 بار ڈبل شفٹ پروگرام کا بجٹ ریلیز ہوا اور کئی اسکولز کے اساتذہ کو تنخواہیں دی گئیں لیکن ہمیں محروم رکھا گیا۔
شمائلہ نے کہاکہ ہم ٹیچرز نے کافی رابطے کیے لیکن کوئی جواب ایس ڈی ای او حسن خیل نہیں دیتی تھی۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ اسکول چھوڑ دیں اور پھر سے بچیوں کا مستقبل خراب ہوجائے لیکن ہم مایوس ہوگئے اور پھر احتجاجاً اسکول بند کردیا۔
انہوں نے کہاکہ اسکول بند رہا اور والدین پوچھتے رہے جس پر ہم نے وجہ بتادی۔ ’اسکول بند کرنے پر بھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اور نہ ہی ہم سے کسی نے رابطہ کیا۔
شمائلہ نے بتایا کہ انہوں نے کافی لوگوں سے بات کی، اے سی حسن خیل کو بھی بتایا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ محکمہ تعلیم نے اسکول بند ہونے پر کوئی توجہ نہیں دی اس طرح 40 بچیوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا اور ان کا ایک سال بھی ضائع ہوگیا۔
’یہ بات غلط ہے کہ قبائلی لڑکیاں پڑھتی نہیں ہیں‘
شمائلہ بتاتی ہیں کہ یہ بات غلط ہے کہ قبائلی لڑکیاں پڑھتی نہیں ہے لیکن محکمہ تعلیم کی عدم توجہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ ڈبل شفٹ اسکول پروگرام کو تعلیم کی پسماندگی ختم کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا لیکن کئی اسکولز کو بجٹ کم پڑھنے کی وجہ سے بند کردیا گیا ہے جس میں بہرام شاہ اسکول بوڑہ سب ڈویژن ایچ ایس ڈی بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہاکہ 10 مہنیوں سے تنخواہ بند ہے اور کہا جا رہا ہے کہ انکوائری ہو رہی ہے، لیکن معلوم نہیں کہ کیا ہورہا ہے۔ اب فائدہ کیا جب اسکول بند ہوچکا، اور بچیوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا کیونکہ اب ہم دوبارہ اس سکول میں نہیں پڑھائیں گی۔
سیکنڈ شفٹ اسکولز پروگرام منصوبہ کامیابی سے چل رہا ہے، مسرور شاہ
دوسری جانب ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ خیبرپختونخوا کے ڈیٹا اینالسٹ مسرور شاہ نے بتایا کہ سیکنڈ شفٹ اسکولز پروگرام منصوبہ کامیابی سے چل رہا ہے۔ تنخواہیں لیٹ ہونے کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ فنانس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے فنڈز ریلیز نہ ہونے اور متعلقہ ڈی ای اوز کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے، البتہ محکمہ کوشش کرتا ہے کہ وقت پر تنخواہیں ریلیز ہوں۔
مسرور شاہ نے کہاکہ ان کی فنانس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کبھی کبھار فنڈز میں تاخیر ہوتی ہے جبکہ کچھ علاقوں میں انکوائریاں بھی چل رہی ہیں جس کی وجہ سے بھی تنخواہیں تاخیر کا شکار ہیں۔