سیاستدان اپنے کسی نہ کسی بیان کی وجہ سے ہدفِ تنقید رہتے ہیں ایسے ہی بلاول بھٹو ماضی میں دیے گئے اپنے بیانات کی وجہ سے آج پھر تنقید کی زد پہ ہیں۔
جب انتخابی مہم شروع ہوئی تو بلاول بھٹواپنے انتخابی جلسوں میں کھلے عام ن لیگ اور نواز شریف پر تنقید کرتے دکھائی دیے، انہوں نے مسلم لیگ ن کو ہی اپنی حریف جماعت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ شکار کا موسم ہے اورہمیں شیر کا شکار کرنا ہے، گزشتہ پی ڈی ایم حکومت میں وزیر اعظم شہباز شریف کے کابینہ میں بطور وزیرخارجہ شامل رہنے والے بلاول بھٹوحالیہ انتخابی جلسوں میں اپنے سابقہ باس کو مناظرے کی دعوت دیتے بھی نظر آئے۔
پھر بلاول بھٹو زرداری نے پاورشیئرنگ کا فارمولا مسترد کرتے ہوئے کہا تھاکہ حکومت کے آخری 2 سال مجھے وزیراعظم بننے کا کہا گیا میں نے منع کردیا، عوام منتخب کریں گے تو وزیراعظم بنوں گا، لیکن اس تمام پس منظر کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان مخلوط حکومت سازی کے معاملات طے پا گئے ہیں، جس کے تحت شہباز شریف وزیراعظم اور آصف علی زرداری صدر ہوں گے ۔
بلاول بھٹوکا کہنا تھا کہ میں اپنے تمام اتحادیوں کا شکرگزارہوں کہ انہوں نے یہ موقع دیا ہے کہ ہم مل کر ملک کو تمام بحرانوں سے نکالیں، عوامی طاقت کا نعرہ لگانے والے بلاول بھٹو نے جب شہباز شریف سے ہاتھ ملایا تو سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے انہیں شدید تنیقد کا نشانہ بنایا گیا۔
صارفین کا کہنا تھا کہ ن لیگ کو مناظرے کی دعوت دینے والوں نے اب انہی سے ہاتھ ملا لیا ہے۔
مناظرہ کرنا تھا،
معائدہ ہو گیا ! #PMLN #PPP— Mansoor Ali Khan (@_Mansoor_Ali) February 20, 2024
واضح رہے کہ 26جنوری 2024 کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری اپنے بیان میں بلاول بھٹو نے کہا تھاکہ میں مسلم لیگ ن کے وزارت عظمٰی کے امیدوار نواز شریف کو مناظرے کی دعوت دیتا ہوں۔ نواز شریف 8 فروری سے پہلے کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت مناظرہ کرلیں۔
I invite the PM candidate of @pmln_org, @NawazSharifMNS, to engage in a debate with me anytime, anywhere before Feb 8. Globally, Presidential and Prime Ministerial candidates participate in televised debates, providing voters with crucial insights into their plans. This…
— BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) January 26, 2024
جس کے جواب میں شہباز شریف نے بلاول بھٹو کو کہا تھا کہ بلاول بھٹو مناظرے کی بجائے سندھ کے معائنے کی دعوت دیتے تو اچھا تھا ، مناظرہ بھی ہو جاتا اور موازنہ بھی۔
واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ اگرچہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے مرکز میں حکومت بنانے کا اعلان کیا ہے لیکن پیپلز پارٹی فی الحال کابینہ کا حصہ نہیں ہو گی اور وفاقی کابینہ کی تشکیل شہباز شریف کی صوابدید ہے۔