دسمبر 1932ء میں نظامی پریس لکھنؤ سے سیدسجاد ظہیر، احمد علی، رشید جہاں اور محمود الظفر کے نو افسانوں اور ایک ڈرامے پر مشتمل 134 صفحات کا ایک منفرد مجموعہ شائع ہوا، جس نے اردو ادب میں انقلاب برپا کردیا۔
اس مجموعے کا نام ’انگارے‘ تھا۔ انگارے میں شامل ان افسانوں اور ڈراموں میں مذہبی قدامت پرستی، تنگ نظری اور موقع پرستی کے ساتھ ساتھ بالائی طبقے کے تضادات، حفظ اخلاق اور بوالہوسی اور سیاسی رویوں کو شعوری طور پر ہدف تنقید بنایا گیا تھا۔
ان افسانوں کے مصنّفین کو یہ اندازہ تو تھا کہ ان افسانوں کا ادبی حلقوں میں شدید ردِ عمل ہوگا، مگر انہیں مذہبی حلقوں نے بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ یوپی کے تقریباً تمام اخبارات میں اس افسانوی مجموعے کے خلاف مضامین اور ضبطی کے مطالبات شائع ہوئے۔ اس ضمن میں ’مدینہ‘ بجنور اور ’سرگزشت‘ لکھنؤ کی ہیجان انگیز تحریریں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں، جن کے عنوانات ہی سے ان کے نفس مضمون کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
’مدینہ‘ بجنور کے اداریئے کا عنوان تھا ’انگارے ایک فحش اور ملحدانہ کتاب‘ جب کہ ’سرگزشت‘ لکھنؤ کا اداریہ ’آگ دیکھی، پانی دیکھا اور انگارے دیکھے‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ ان کے ساتھ ساتھ ’سرفراز‘ لکھنؤ، ’سرپنج‘ لکھنؤ ، ’راستی‘ بارہ بنکی، ’ہم دم‘ لکھنؤ، ’نوید‘ لکھنؤ، ’خلافت‘ لکھنؤ، ’آزاد‘ لاہور، ’رہبر‘ دکن حیدرآباد، ’شیرازہ‘ بارہ بنکی، ’مخبراعلیٰ‘ مراد آباد، ’حقیقت‘ لکھنؤ اور ’پیام‘ علی گڑھ میں بھی اسی نوعیت کے اداریے شائع ہوئے۔
’سرپنج‘ نے اپنے اداریے میں لکھا کہ ’یہ کتاب دس مہمل اور بے تکے افسانوں کا ایک بے ڈھنگا سا مجموعہ ہے جس کو ایک عورت اور تین مردوں کی اجتماعی کوششوں نے مرتب کیا ہے۔ پانچ افسانے سجاد ظہیر نے لکھے ہیں، دو افسانے احمد علی صاحب کی ادبی بدہضمی کا نتیجہ ہیں، دو افسانے رشید جہاں صاحبہ کی انشا پردازانہ ہیضہ کا نمونہ ہے اور ایک افسانہ محمود الظفر صاحب نے لکھ مارا ہے۔ ان دسوں افسانوں کو پڑھ کر اگر پہلی مرتبہ کوئی شخص اس نتیجے پر پہنچ جائے کہ لکھنے والے نے کیا لکھا ہے اور پڑھنے والے نے کیا پڑھا ہے تو دعوے سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بریلی یا آگرے کے پاگل خانے کا مہتمم بننے کا اہل ترین ہوگا‘۔
روایت کے مطابق یہ اداریہ شوکت تھانوی نے لکھا تھا۔ اداریے کے آخر میں انہوں نے لکھا کہ ’ہمارے خیال میں یہ مجموعۂ خرافات سوائے اس کے اور کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ ان انگاروں کو خاکستر کر دیا جائے‘۔
اردو اخبارات کے ساتھ ساتھ انگریزی اخبارات بھی پیچھے نہیں رہے اور 21 فروری 1933ء کو ہندوستان ٹائمز اور 27 فروری 1933ء کو اسٹار الٰہ آباد نے بھی انگارے کو ضبط کرنے کا مطالبہ کیا۔
علمائے کرام نے کتاب اور اس کے تخلیق کاروں کے خلاف منبروں کو پلیٹ فارم کی طرح استعمال کرنا شروع کیا اور فتوؤں کی بوچھار شروع کردی۔ قانونی چارہ جوئی کرکے سزا دلانے کے سلسلہ میں مقدموں کے لیے فنڈز جمع کیے گئے اور مصنّفین کو سنگ سار کرنے اور سزائے موت دینے تک کا مطالبہ کیا گیا۔
یہ معاملہ یو پی کی اسمبلی تک بھی پہنچا جہاں اس مجموعے پر سوال اٹھائے گئے اور کتاب کی ضبطی کے مطالبے کیے گئے۔27 فروری 1933ء کو یو پی کی صوبائی کونسل میں حافظ ہدایت حسین بار ایٹ لا نے ’انگارے‘ کو ضبط کیے جانے کا مطالبہ کیا۔ اسی روز لکھنؤ کے سٹی مجسٹریٹ نے ’انگارے‘ کے اشاعتی ادارے نظامی پریس کے مالک علی جواد صاحب کو اپنی عدالت میں بلایا، جہاں علی جواد صاحب نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور مذہبی افراد کی دل آزاری پر معذرت چاہی۔ انہوں نے کتاب کی تمام غیر فروخت شدہ کاپیاں سٹی مجسٹریٹ کے دفتر میں جمع کروا دیں۔
آخرِ کار 15 مارچ 1933ء کو اتر پردیش حکومت نے تعزیرات ہند کی دفعہ 295۔اے کے تحت اس مجموعہ کو ضبط کرنے کا اعلان کر دیا۔ حکم میں کہا گیا کہ ’اس کتاب کے ذریعے ایک طبقے کے مذہب اور مذہبی عقائد کی بری نیت سے اور جان بوجھ کر توہین کرکے مذہبی جذبات کا مشتعل اور برانگیختہ کیا گیا ہے‘۔
برطانوی حکومت کے دوران عام طور پر دو طرح کی تحریروں پر پابندی عائد کی جاتی تھی ایک تو وہ تحریریں جن میں حکومت وقت پر تنقید کی جاتی اور آزادی کا مطالبہ کیا جاتا تھا اور دوسری وہ تحریریں جن سے فرقہ وارانہ تصادم کے بھڑک اٹھنے کا اندیشہ ہوتا تھا۔
بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے اوائل میں ہندوستان میں انقلابِ روس کے زیرِ اثر سوشلسٹ اور کمیونسٹ لٹریچر بھی شائع ہونے لگا تھا اور مارکس اور لینن کی تحریروں کے تراجم بھی منظر عام پر آنے لگے تھے، جو شائع ہوتے ہی پابندی کی زد میں آجاتے تھے۔ اس پس منظر میں ’انگارے‘ کی ضبطی کا جواز فراہم کرنا کوئی مشکل بات نہیں تھی۔
حکومت کے فیصلے کے بعد قاعدے کے مطابق پولیس نے پانچ نسخوں کو محفوظ کر لیا اور بقیہ تمام نسخے نذر آتش کردیے۔ ان پانچ نسخوں میں سے تین نسخے نئی دہلی کے ریکارڈ خانے میں محفوظ کیے گئے اور دو نسخے لندن بھیج دییے گئے، تاہم بعض ادبی شخصیات کے گھروں میں اس کتاب کے نسخے موجود رہے۔
شبانہ محمود نے اپنی کتاب ’انگارے ایک جائزہ‘ میں لکھا ہے کہ ’ہر چند کہ کتاب ضبطی کی زد میں آگئی تھی مگر وہ خیالات و افکار جو انگارے کا بنیادی موضوع تھے جنگل کی آگ کی طرح سارے میں ملک میں پھیل گئے اور موضوع گفتگو بنے رہے۔
انگارے سے ہندوستانی ادب میں آزاد خیالی کے ایک نئے عہد کا آغاز ہوا اور اس سے اردو کے افسانوی ادب میں انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ یہی وہ نقطۂ آغاز ہے جب بیسویں صدی کی سب سے اہم ادبی تحریک انجمن ترقی پسند مصنّفین کی اصل بنیاد رکھی گئی‘۔
یہ درست ہے کہ ’انگارے‘ کے افسانے فنی معیار پر پورے نہیں اترتے تھے، لیکن یہ بات طے ہے کہ اردو افسانے کو حقیقت نگاری اور شعور کی رو سے متعارف کروانے کا سہرا ’انگارے‘ ہی کے سر جاتا ہے۔ ’انگارے‘ کی اشاعت محض چند افسانوں کے ایک مجموعے کی اشاعت نہ تھی بلکہ فرسودہ روایات اور رسمی قیود سے بغاوت کا ایک اظہار اور نئے عہد نامے کا اعلان تھی۔
شبانہ محمود نے مزید لکھا ہے کہ ’اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کتاب میں دو چار مقامات ایسے ضرور ہیں جو بے حد نامناسب اور جارحانہ نوعیت کے حامل ہیں، مگر کتاب میں بعض ایسے اہم اور بنیادی نوعیت کے سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں جو ہمارے اس وقت کے معاشرے ہی میں نہیں، آج کے معاشرے میں بھی بنیادی اور اساسی اہمیت رکھتے ہیں۔ آزادیِ فکر اور آزادیِ اظہار کے اس عہد میں اختلاف آراء کے حق کو تسلیم کیا جانا چاہیے اور وسعت قلب و نظر کامظاہرہ کرنا چاہئے‘۔
’انگارے‘ کی ضبطی کے بعد 15 اپریل 1933ء کو اس مجموعے کے مصنّفین نے دہلی سے ایک بیان جاری کیا جسے محمود الظفر نے لکھا تھا اور الٰہ آباد کے شائع ہونے والے اخبار لیڈر نے ’انگارے کے دفاع میں‘ کے عنوان سےشائع کیا تھا۔ اس بیان میں کہا گیا تھا کہ ’اس کتاب کے مصنّفین اس ضمن میں کسی معذرت کے خواہاں نہیں ہیں، وہ اسے وقت کے سپرد کرتے ہیں، وہ کتاب کی اشاعت کے نتائج سے بالکل خائف نہیں ہیں اور اس کے اجرا اور اس طرح کی دوسری کاوشوں کے اجرا کے حق کی تائید کرتے ہیں۔ وہ عمومی طور پر بنی نو انسان اور خصوصی طور پر ہندوستانی عوام کے لئے اہم ترین امور کے سلسلے میں آزادیِ تنقید اور آزادیِ اظہار کے حق کی حمایت کرتے ہیں‘۔
اس بیان میں تجویز پیش کی گئی کہ ’اہل قلم ہمت نہ ہاریں اور فوری طور پر ترقی پسند مصنّفین لیگ کی تشکیل کی جائے جو وقتاً فوقتاً اس طرح کی دوسری تحریریں انگریزی اور دوسری ملکی زبانوں میں شائع کریں‘۔
کہا جاسکتا ہے کہ یہی بیان انجمن ترقی پسند مصنّفین کے پہلے منشور کی بنیاد بنا اور یہی لیگ آف پروگریسو رائٹرز تھی جو آگے چل کر آل انڈیا پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن کی شکل میں سامنے آئی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ 1936ء میں قائم ہونے والی انجمن ترقی پسند مصنّفین کی اصل بنیاد 1932ء میں ’انگارے‘ کی اشاعت کے ساتھ رکھ دی گئی تھی۔