حمزہ شہباز شریف پارٹی سے کیوں ناراض ہیں؟

جمعرات 22 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

8 فروری کو منعقدہ عام انتخابات کے نتائج کی روشنی میں مسلم لیگ ن وفاق اور پنجاب حکومت بنانے کا اعلان کر چکی ہیں، وفاق میں مخلوط حکومت کے وزیر اعظم شہباز شریف ہوں گے جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کو سادہ اکثریت مل چکی ہے اور یہاں وزیرِ اعلٰی کی امیدوار مریم نواز ہیں۔

حکومت سازی کے اس سارے عمل میں حمزہ شہباز کہیں نظر نہیں آئے، الیکشن سے پہلے حمزہ شہباز شریف اپنے حلقے میں انتخابی مہم تک محدود رہے، لاہور کے حلقہ این اے 118 میں الیکشن مہم کے لیے دو دفعہ گئے لیکن بیشتر مرتبہ اپنے حلقے کے کارکنوں کو ماڈل ٹاؤن سیکریٹیریٹ بلا کر خطاب کیا۔

اس ساری صورتحال میں بھی وہ صوبائی اور قومی اسمبلی کی دونوں نشستیں کم مارجن سے ہی سہی مگر جیتنے میں کامیاب ہوگئے، سابق وزیر اعلی پنجاب حمزہ شہباز نے کسی دوسرے شہر میں جاکر پارٹی کی کسی انتخابی مہم میں شرکت نہیں کی، حتٰی کہ حلقہ این اے 132 قصور میں اپنے والد شہباز شریف کی ہدایت کے باوجود وہاں جاکر ریلی سے خطاب کرنے نہیں گئے۔

البتہ الیکشن سے قبل پارٹی کے سابق صوبائی اراکین اسمبلی کے ساتھ ماڈل ٹاؤن سیکریٹیریٹ میں ملاقاتیں اور الیکشن سرگرمیوں کے حوالے سے پوچھتے رہے، لیگی ذرائع کے مطابق الیکشن کے بعد پارٹی کی پنجاب میں صورتحال دیکھتے ہوئے حمزہ شہباز مکمل طور پر خاموش ہوگئے ہیں۔

’پارٹی کی کسی میٹنگ میں شامل نہیں ہوتے حتٰی کہ مریم نواز جب وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے نامزد ہوئیں وہ انہیں مبارکباد دینے بھی جاتی عمرہ بھی نہیں گئے، اس وقت حکومت سازی پر کئی اجلاس شہباز شریف کے ماڈل ٹاؤن میں واقع گھر اور جاتی عمرہ میں نواز شریف کے گھر ہوئیں، حمزہ شہباز کسی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔‘

پارٹی ذرائع کے مطابق اگر ماضی کی بات کی جائے تو پی ڈی ایم کے قیام کے وقت سے حمزہ شہباز شریف ہر اجلاس میں شریک ہوتے تھے لیکن اس دفعہ وہ پارٹی کی کارگردگی اور خاندان کے رویے سے مایوس ہوچکے ہیں۔

حمزہ شہباز باہر جارہے ہیں ؟

مسلم لیگ ن کے رہنما نے وی نیوز کو بتایا کہ جب شہباز شریف اور نواز شریف کو خاندان سمیت جلا وطن کیا گیا تھا تو اس وقت پاکستان میں اگر کوئی تھا تو وہ حمزہ شہباز تھے، بے گناہ جیلیں کاٹیں لیکن وہ اپنے خاندان اور پارٹی کے موقف کے ساتھ کھڑے رہے اور پارٹی کو مشکل وقت سے نکالنے کے لیے کچھ نہ کچھ تدبیریں کرتے رہے۔

’اس دفعہ حمزہ شہباز شریف کے حالات مختلف ہیں، ایک اطلاع کے مطابق حمزہ شہباز اپنی فیملی کے ہمراہ امریکا یا لندن منتقل ہونا چاہتے ہیں، انہوں اس بات کا اظہار اپنی نجی محفل میں بھی کیا ہے، اس وقت وہ خاندانی سیاست سے بالکل مایوس ہوچکے ہیں، اسی وجہ سے وہ کہیں کسی اجلاس میں نظر نہیں آتے۔‘

انہی لیگی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مزید بتایا کہ جب پارلیمانی بورڈ ٹکٹوں کی تقسیم کے ضمن میں انٹرویو کررہا تھا کہ تو حمزہ شہباز نے ایک دن کھڑے ہوکر کہا تھا کہ پارٹی اپنے مخلص ورکرز کو نظر انداز کر رہی ہے، ہمیں ٹکٹیں انہیں دینی چاہییں جنہوں نے پارٹی کے لیے قربانیاں دی ہیں، انہیں نہ دی جائیں جو سفارشی ہیں، لیکن ان کی کوئی شنوائی نہ ہوئی۔

اس کی ایک مثال سید توصیف شاہ ہیں جو حمزہ شہباز کے قریبی اور وہ پارٹی کے وفادار بھی ہیں، انہیں صرف اس وجہ سے ٹکٹ نہیں ملا کیونکہ وہ حمزہ شہباز کے قریبی ہیں، حمزہ شہباز نے سید توصیف شاہ کے لیے حلقہ این اے 128 میں سیٹ ایڈجسمنٹ کرنے کی بجائے پارٹی ورکر کو ٹکٹ دینے کا کہا تھا جسے نہیں مانا گیا، ایسے چند اور بھی افراد تھے جنہیں حمزہ شہباز پارٹی ٹکٹ دلوانا چاہتے تھے مگر انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔

حمزہ شہباز کبھی نواز شریف کے سیاسی جانشین تھے

لیگی ذرائع کے مطابق ایک وقت تھا جب نواز شریف بڑے بڑے جلسوں میں اعلان کرتے تھے کہ اگر ان کا کوئی سیاسی جانشین ہوگا تو وہ ان کا بیٹا اور بھتیجا حمزہ شہباز ہوگا، لیکن حالات نے کروٹ لی اور اب نواز شریف کی سیاسی جانشین مریم نواز ہیں۔

حمزہ شہباز کی کارگردگی پر اس وقت نوازشریف نے سوالات اٹھائے، جب حمزہ شہباز وزیر اعلی پنجاب بنے اور دو ماہ بعد ان سے پی ٹی آئی نے وزارتِ اعلیٰ چھین لی اور 2022 میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں بھی ن لیگ 20 میں سے 15 نشستیں ہار گئی تھی، اس بنیاد پر نواز شریف نے انہیں نظر انداز کیا اور اب حمزہ شہباز ماڈل ٹاؤن سیکریٹیریٹ تک ہی محددو ہوکر رہ گئے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp