اللہ ہم پر رحم کیوں کرے؟ 

جمعہ 23 فروری 2024
author image

امتیاز بانڈے

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

23 جنوری کو جب کچھ دیر کے لئے اپنے واٹس ایپ گروپس پر آوارہ گردی شروع کی تو ایک اندوہناک خبر، جس کے ساتھ کسی ستم ظریف نے 2 ہولناک تصاویر بھی منسلک کر دیں تھیں، نظروں سے گذری۔ شاہ فیصل کالونی کے علاقے میں ایک باپ  اپنے 3 معصوم بچوں اور بیوی کو قتل کرنے کے بعد خود چھت کے پنکھے میں پھندا بنا کر لٹک گیا۔

تصاویر دیکھ کر بہت دیر تک خالی الذہنی کی کیفیت میں اپنی کرسی پر منجمد بیٹھا رہا۔ کچھ ایسی کیفیت تھی کہ جی چاہ رہا تھا چیخنا شروع کر دوں، پھر جی چاہا کچھ لکھوں، لیپ ٹاپ پر بیٹھا لیکن وہ الفاظ ہی سمجھ نہیں آئے کہ اس قتل کا اور اس خاندان کی بربادی کا نوحہ لکھ سکوں اور اگر لکھوں بھی تو اربابِ اقتدار میں سے کس کی صحت پر کوئی اثر پڑنے والا ہے۔ لیکن پھر ہمیشہ کی طرح یہ سوچ کر لکھنے بیٹھ گیا کہ اپنے حصے کا کام کرتا چلوں۔

میں ہر اس خود کشی کے فعل کو قتل ہی گردانتا ہوں جو کسی بھی شخص نے اپنے دگرگوں معاشی حالات سے مجبور ہو کر اور ریاست کی بے حسی سے تنگ آ کر کی ہو۔ گزشتہ چند سالوں سے یہ ملک اور اس کے ‘عام لوگ’ جس اذیت اور کرب کی زندگی گزار رہے ہیں، اس تکلیف کو صرف ایک حساس شخص ہی محسوس کر سکتا ہے۔ یہ قتل کا واقعہ کوئی پہلا نہیں ہے بلکہ ہر دوسرے روز کسی نہ کسی شخص یا پورے خاندان کی اجتماعی خود کشی کی خبریں اب تواتر سے آنا شروع ہو گئی ہیں۔ جب بھی کوئی ایسا قتل کا واقعہ ہوتا ہے سوچتا ہوں کہ کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟

سب سے پہلے تو ذہن میں آتا ہے کہ ریاست ہی اس کی ذمہ دار ہے جس کے پاس وسائل موجود ہوتے ہوئے بھی وہ عوام کی بھلائی کا کوئی کام نہیں کر رہی۔ بلکہ ان وسائل کو اس ملک کے کرپٹ، بدعنوان اور لالچی حکمران گدھ کی طرح نوچ نوچ کر کھانے میں مصروف ہیں۔ یہ وہ بے ضمیر لوگ ہیں جو سیلاب زدگان اور زلزلہ زدگان کے لئے آئی ہوئی امداد تک بھی ہڑپ کر جاتے ہیں۔ میں نے بہت کھنگالا کہ شاید کسی اخبار یا چینل پر کسی سیاستدان کا اس ہولناک واقعے پر کوئی بیان آگیا ہو یا اس علاقے کا کوئی سیاسی ورکر یا لیڈر اس مصیبت زدہ خاندان کے گھر پر چلا گیا ہو لیکن ایسا کچھ نہیں پایا۔

یقیناً ان سیاستدانوں نے بھی یہ خبر ضرور پڑھی یا سنی ہو گی لیکن اس وقت وہ سب اقتدار حاصل کرنے کی جنگ میں مصروف تھے۔ الیکشن کے سلسلے میں ہونے والی کارنر مٹینگز اور اپنے بیانات سے بھوک اور تنگ دستی سے پریشان عوام کو جھوٹے وعدوں کے ذریعے ایک بار پھر بہلانے پھسلانے میں مصروف تھے۔ اپنی الیکشن کی مہم پر لاکھوں بلکہ کروڑوں خرچ کرنے والوں کو کسی ایسے سفید پوش خاندان کے گھر میں راشن ڈالنے کی توفیق نہیں ہوتی جو زبان سے تو نہیں بول سکتے لیکن اگر ان کی آنکھوں میں بسا کرب کوئی پڑھ سکے تو شاید اسے اندازہ ہو جائے کہ یہ  بدقسمت خاندان کس طرح اپنے بدترین معاشی حالات سے نبرد آزما ہے۔ یہ ظالم لوگ اس وقت کسی کی مدد کرتے ہیں جب انہیں فوٹو سیشن کروانا ہو۔

سننے میں آیا ہے کہ صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے ٹکٹ ایک سے 5 کروڑ میں بیچے گئے اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی دی گئی کہ الیکشن کی مہم چلانے کے لئے بھی کم از کم 25 لاکھ روپے کا انتظام رکھنا ضروری ہے۔ جو لوگوں نے دیے بھی کیونکہ منتخب ہو جانے کے بعد یہ سارے پیسے بمع سود قومی خزانے کو لوٹ کر واپس لے لیے جائیں گے۔ یعنی اب سیاست میں آنا اور الیکشن لڑنا بھی کسی غریب تو کیا مڈل کلاس شخص کے بس میں بھی نہیں ہے۔

یہ اندوہناک خبر یقیناً موجودہ نگرا ں حکومتوں کے افسران اور نمانئدگان نے بھی پڑھی ہوگی لیکن وہ بھی ان دنوں مصروف تھے کیونکہ انہیں ٹاسک دیا گیا تھا کہ آنے والے الیکشن میں صرف اس سیاستدان کو جتوانا ہے جسے اس ملک کی مقتدر طاقتیں کی آشیرباد حاصل ہے۔ ان کی ترجیحات میں یہ شامل نہیں ہے کہ ریاست کا کون سا شخص بے روزگار ہے اور کون اس ہوشربا مہنگائی کے باعث، جس میں ایک عام آدمی کی تنخواہ بجلی، گیس اور پانی کے بلوں میں ہی خرچ ہو جاتی ہے، اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیج پا رہا، ان کے لئے کسی بھی تہوار پر نئے کپڑے بنوا کر نہیں دے پا رہا اور کون کراچی کی سڑکو ں پر نہ صرف صبح شام لٹ رہا ہے بلکہ کئی معصوم تو لٹنے کے بعد اپنی جان بھی گنوا بیٹھے۔ انہیں اگر فکر تھی تو صرف اس بات کی کہ انہیں دی گئی لسٹ کے مطابق ‘بتائے گئے’ امیدوار کو کس طرح جتوانا ہے۔

حضرت عمرؓ نے تو فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک بکری بھی بھوکی مر گئی تو عمرؓ سے اس کے بارے میں حشر کے دن سوال ہو گا۔ مگر ہماری بے حسی دیکھیں ہر دوسرے روز کوئی نہ کوئی شخص بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر خودکشی جیسا قبیح فعل کرنے پر مجبور ہے اور ہم میں سے کوئی شخص بھی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ یہ صرف ریاست ہی کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ہم خود بھی، بحیثیت انسان اور مسلمان ہر اس شخص کی موت کے ذمہ دار ہیں جس نے بھوک، افلاس، تنگ دستی سے تنگ آ کر خود کشی کی ہو۔

ہم جو اپنے دوستوں اور عزیز و اقارب کے ساتھ ایک وقت میں ہزاروں روپے کا کھانا کھا جاتے ہیں، شادی بیاہ کی فضول اور لغو رسومات پر لاکھوں بلکہ کروڑوں خرچ کر دیتے ہیں لیکن کبھی اپنے آس پاس دیکھنے کی کوشش نہیں کر تے کہ کوئی شخص اپنے بیوی بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو بھی پورا کرنے سے قاصر ہے۔ اس ملک کا تنخواہ دار طبقہ اپنی تنخواہ سے بمشکل تمام بجلی، گیس اور پانی کے بل ادا کرنے کے بعد شاید صرف ایک وقت پیٹ بھر کر روٹی کھا سکتا ہے۔ ہم جانتے بوجھتے بھی انجان ہیں کہ ایک عام اور غریب آدمی چھوٹی سے بیماری سے بھی مر جاتا ہے کیونکہ اس کو کسی اچھے ہسپتال میں صرف اس لیے علاج کی سہولت میسر نہیں ہے کیونکہ وہ ڈاکٹرز کی فیس اور ہسپتال کے دیگر اخراجات پورے کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔

ہم اپنی بڑی بڑی پر تعیش گاڑیوں میں سفر کرتے ہوئے سڑک کنارے رفاحی اداروں کے دستر خوانوں پر حسرت و یاس کی تصویر بنے بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو اپنی  بے روزگاری یا کم تنخواہ کی وجہ سے اپنی عزت نفس کا گلا گھونٹ کر فٹ پاتھوں پر کھانا کھانے پر مجبور ہیں لیکن ہم منہ دوسری جانب کر کے ان کے پاس سے دھول اڑاتے نکل جاتے ہیں۔ ہم من حیث القوم بے حس اور ظالم بن چکے ہیں اور معاشرے کی اس بے حسی کی وجہ سے ہر روز کوئی نیا شخص خود کشی کرنے پر مجبور ہے۔ ذرا کبھی اس کرب کو محسوس کرنے کی کوشش کریں کہ ہمارے بچوں میں سے کوئی ایک کسی چیز کی خواہش کرے جسے ہم پورا نہیں کر سکتے تو کیا ہم ٹھیک طرح سے سو سکتے ہیں؟

خود کشی کرنے والے شخص کے لئے یہ بہت آسان ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لے بجائے اس کے کہ اپنے بیوی بچوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی ہم ہمیشہ یہی دعا کرتے ہیں کہ ”اللہ رحم کرے“۔ لیکن وہ کیوں ایسی قوم پر رحم کرے جس کے اندر سے انسانیت ختم ہو چکی ہو اور جس کا اولین کام اپنی ذات کے لئے مال و دولت اکٹھا کرنا ہو۔ جو خلق خدا کو اپنے سامنے مصیبت میں دیکھ کر منہ موڑ لے اور کسی کو مرتے دیکھ کر اس کی مدد کرنے کے بجائے ویڈیو بنانا شروع کر دے تاکہ سب سے پہلے لوگو ں تک پہنچا کر داد حاصل کرے۔ اس مملکتِ خدا داد کا حکمران طبقہ تو اسی تگ و دو میں مصروف ہے کہ کس طرح دوبارہ سے اقتدار حاصل کرے لیکن  خدارا بحیثیت انسان اپنے آس پا س نظر ڈالیں اور لوگوں کی تکلیف کو سمجھنے اور ان کے دکھوں کو کسی بھی طرح بانٹنے کی کوشش کریں۔ ورنہ روز حشر حکمرانوں کی باری بعد میں آئے گی، سب سے پہلے خود کشی کرنے والے شخص کے پڑوسیوں سے باز پرس کی جائے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امتیاز بانڈے سابق پولیس افسر ہیں۔ وہ جب اپنے تجربے کی روشنی میں مختلف سماجی موضوعات پر لکھتے ہیں تو یہ محض تجزیہ نہیں بلکہ ایک ماہر فن کی قیمتی رائے ہوتی ہے۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp