خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت سازی: انتظامی و پولیس افسران پریشان کیوں؟

جمعرات 22 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

 9 مئی کے بعد زیر عتاب آنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کے امکانات روشن ہونے کے بعد انتظامی اور پولیس افسران کی پریشانی بڑھ گئی جس کے پیش نظر انہوں نے دیگر صوبوں میں تبادلے کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں۔

واضح رہے کہ 9 مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد پی ٹی آئی کے اکثر رہنما اپنے خلاف ایف آئی آر ہونے کے پیش نظر گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہو گئے تھے اور ان کی تلاش کے لیے پولیس مسلسل چھاپے مار رہی تھی۔ ان چھاپوں کے باعث تحریک انصاف کے لیڈرشپ ناراض تھی اور پولیس پر چادر اور چاردیوری کا تقدس پامال کرنے کا الزام لگاتی ا رہی تھی۔

تحریک انصاف کے مطابق اس معاملے میں سول افسران بھی پیچھے نہیں تھے اور انہوں نے انتخابی مہم کے دوران پارٹی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو مہم کی اجازت نہیں تھی۔

تمام تر کارروائیوں اور غیر اعلانیہ پابندیوں کے باوجود عام انتخابات میں تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں واضح اکثریت حاصل ہوئی جس کے بعد پارٹی رہنماؤں کے خلاف سختیوں میں بھی کمی دیکھنے میں آئی اور روپوش رہنما منظر عام پر آنے لگے۔

کیا تحریک انصاف افسران کے خلاف انتقامی کارروائی کرے گی؟

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما پولیس اور انتظامی افسران کو سیاسی کارروائیوں سے باز رہنے کی تاکید کرتے تھے اور اب صوبے میں اکثریت لینے کے بعد انتقامی کارروائی کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ چند دن پہلے پشاور کے اسپیکر ہاؤس میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے نامزد وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ تھا کہ جنہوں نے زیادتیاں کی ہیں انہیں سزا ضرور ملے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 9 مئی کے بعد تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنان کو بیجا تنگ کیا گیا اور گھروں پر چھاپے مارے گئے۔

نامزد وزیر اعلیٰ کے ضلعے کے ڈی پی او کی خدمات پنجاب کے حوالے

9 مئی کے بعد تحریک انصاف کے رہنما علی امین گنڈاپور کے خلاف 24 کے قریب مقدمات درج کیے گئے جن میں ان کی گرفتاری بھی ہوئی تھی جبکہ عدالت سے ضمانت ملنے کے بعد وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہو گئے تھے اور پھر ان کے گھر پر متعدد بار چھاپے بھی مارے گئے۔

علی امین وزیر اعلیٰ نامزد ہونے کے بعد ہی ڈی آئی خان کے ڈی پی او خیبر پختونخوا سے نکل گئے۔ وفاق کی جانب سے اعلانیے کے مطابق ڈی پی او ڈی آئی خان کی خدمات خیبر پختونخوا سے لے کر پنجاب کے حوالے کر دی گئیں۔

پولیس اور انتظامی افسران پریشان، خیبر پختونخوا سے تبادلے کی کوششیں

تحریک انصاف کی اکثریت کے بعد خیبر پختونخوا میں پولیس اور سول افسران نے خیبر پختونخوا سے تبادلے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد بیورکریسی میں بڑے پیمانے تبادلے ہونے کا امکان ہے اور افسران کی فہرست تیار کر لی گئی ہے۔

ذرائع نے کہا کہ جو افسران نگران دور میں اہم عہدوں پر تعنیات ہوئے ان کے خلاف کارروائیاں ہوں گی جبکہ انہیں پہلی فرصت میں او ایس ڈی بنادیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف کو ضلعی افسران کی ڈی آر اوز تعیناتی اور کردار پر شدید تحفظات تھے اور وہ ان افسران پر انتخابی نتائج تبدیل کرنے کا بھی الزام عائد کر رہی ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما تیمور جھگڑا نے انتخابی نتائج کے خلاف پریس کانفرنس میں الزام لگایا تھا کہ پشاور کے ڈی آر او نے نتائج تبدیل کیے اور انہیں ہروادیا۔ علاوہ ازیں انتخابات سے قبل پولیس چھاپوں پر تیمور جھگڑا نے کئی بار آئی جی پولیس کو خطوط بھی لکھے تھے۔

پریشان حال افسران پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی سے گریزاں

انتخابی نتائج واضح ہونے کے بعد ہی سول انتظامیہ اور پولیس کے رویے میں واضح تبدیلی دیکھنے میں ائی ہے اور وہ تحریک انصاف کے کارکنان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی سے گریز کرنے لگے ہیں۔

نتائج کے خلاف روڈ بند کرنے کے لیے کئی روز تک احتجاج جاری رہا لیکن احتجاجیوں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی جبکہ انتخابات سے ایک روز قبل تک صورتحال یہ تھی کہ پی ٹی آئی کارکنان کو گھروں تک سے نکلنے نہیں دیا جا رہا تھا۔

صحافی زائد امداد کے مطابق تحریک انصاف حکومت سنبھالنے کے بعد افسران کے خلاف کارروائی کرے گی اور ایسوں کی صوبے میں کوئی جگہ نہیں ہوگی۔

زائد کے مطابق تمام جماعتیں ایسا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی ایس ایس پی افسران تو صوبے سے نکل بھی جائیں گے لیکن صوبائی حکومت کے افسران بہت مشکل میں پڑجائیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp