پاکستانی نژاد مسلم خاندان کے قتل کے جرم میں کینیڈین شہری کو 5 مرتبہ عمر قید کی سزا

جمعہ 23 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کینیڈا کی ایک عدالت نے کینیڈین شہری کو پاکستانی نژاد مسلم خاندان کے قتل کے جرم میں 5 مرتبہ عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔

گزشتہ روز اونٹاریو کی سپریم کورٹ آف جسٹس کے جج رینی پومیرنس نے کینیڈین شہری نیتھنیل ویلٹ مین کو ایک مسلمان خاندان کو قتل کرنے کے جرم میں اسے 5 مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

کینیڈا کے 23 سالہ نیتھنیل ویلٹ مین نے جون 2021ء میں سوچے سمجھے منبصوبے کے تحت ایک مسلمان خاندان کے 4 افراد کو قتل کیا، جرم کی سزا پانے والے کینیڈین شہری نے اپنے ٹرک سے مسلمان خاندان کو کچلنے کا اعتراف کیا تھا۔

استغاثہ نے مقدمے کی سماعت میں مؤقف اختیار کیا کہ مجرم نیتھنیل ویلٹ نے اپنے جرم سے مسلمانوں کو ڈرانے اور دہشت زدہ کرنے کی کوشش کی ہے، جبکہ مجرم کا دفاع کرنے والے وکلاء کا مؤقف تھا کہ نیتھنیل ویلٹ مین ذہنی بیماری کا شکار ہے۔

مجرم کے وکلاء نے مؤقف اپنایا کہ وہ ہالوکینوجینک سائلو سائیبن مشروم کھانے کے بعد ‘انتہائی الجھن کی حالت’ میں تھا، تاہم عدالت نے مجرم کے وکلاء کا مؤقف قبول نہیں کیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ مجرم نیتھنیل ویلٹ مین نے ‘مہینوں سے مسلمانوں پر ایک قاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی کی تھی اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے تھے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو اس وحشیانہ طریقے سے قتل کر دے گا۔’

جج نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ‘میں نے محسوس کیا کہ مجرم کی کارروائیاں دہشت گردانہ سرگرمیاں ہیں۔‘

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’تقریباً 10 ہفتوں کے مقدمے میں جیوری نے پایا کہ مجرم کے کمپیوٹر میں سفید فام قوم پرست تنظیم کا منشور تھا، جس میں اس نے سفید فام قوم پرستی کی حمایت کی تھی اور مسلمانوں سے اپنی نفرت کو بیان کیا تھا۔

جج نے نوٹ کیا کہ ویلٹ مین اتوار کی ایک گرم شام کو لندن کی ایک سڑک پر مسلمان شہری افضل اور ان کے خاندان کے پاس سے گزرا، اپنے نئے خریدے ہوئے ٹرک سے ان کی گاڑی کو ٹکر مار دی۔

مقدمے کی تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ مسلمان خاندان پر حملے کے دوران مجرم نے ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹ سمیت ‘جنگی سامان’ پہن رکھا تھا۔

مقدمے میں پیش کیے گئے شواہد کے مطابق نتھینیل نے اس خاندان کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ اس نے اس خاندان کی 2 خواتین کو روایتی پاکستانی کپڑے پہنے دیکھ لیا تھا۔

جج پومیرینس نے کہا کہ نتھینیل ’اسپاٹ لائٹ میں اپنی جگہ ڈھونڈ رہا تھا‘ جب اس نے اس خاندان کو نشانہ بنایا۔

سلمان افضال کا خاندان 2007 میں اسلام آباد سے کینیڈا منتقل ہوا تھا۔ ان کے قتل نے اس حملے کے بعد لندن اور کینیڈا کی وسیع تر مسلم کمیونٹی میں تشویش پھیل گئی ہے۔

ٹرک سے ٹکر لگنے پر 46 سالہ سلمان افضل، ان کی اہلیہ 44 سالہ مدیحہ سلمان، ان کی 15 سالہ بیٹی یمنیٰ اور دادا 74 سالہ طلعت افضل جاں بحق ہوگئے، ایک نو سالہ لڑکا بھی شدید زخمی ہوا۔

جنوری میں سماعت کے دوران قتل کیے گئے جوڑے کے بیٹے کا بیان بھی پڑھ کر سنایا گیا۔

انہوں نے لکھا کہ وہ ’بہت دکھی ہیں کہ اب وہ اپنے اہل خانہ سے بات نہیں کر سکتے اور ان کے ساتھ مل کر نئی یادیں نہیں بنا سکتے۔‘

انہوں نے مزید لکھا کہ انہیں ’اپنی ٹانگ سے دھاتی پلیٹ اتروانا ہو گی جو بہت تکلیف دہ ہوگا اور مجھے پھر سے چلنا سیکھنا ہوگا۔‘

انھوں نے اپنے بیان کا اختتام ’تمام بچوں کے نام‘ پیغام سے کیا۔

انھوں نے لکھا ’آپ سوچتے ہوں گے کہ آپ کے بہن بھائی بہت تنگ کرتے ہیں، اور سچی بات یہ ہے کہ میں بھی یمنیٰ کے بارے میں ایسا ہی سوچتا تھا لیکن جب وہ چلے جاتے ہیں تو آپ کا دل کرتا ہے کہ آپ آخری دفعہ ان سے جھگڑا کر لیں۔‘

یاد رہے کہ کینیڈا کی کسی عدالت کا یہ پہلا فیصلہ ہے جس نے قتل کے مقدمے میں سفید فام مجرم کو دہشتگردی کا مرتکب قرار دیا ہے اور اسے دہشتگردی ایکٹ کے تحت عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

واضح رہے کہ اس مسلمان خاندان کا قتل 2017 میں کیوبیک سٹی کی ایک مسجد میں ہونے والی فائرنگ کے بعد سے کینیڈا میں سب سے مہلک مسلم مخالف حملہ تھا، کیوبیک سٹی مسجد میں 6 افراد جاں بحق ہوئے تھے، جبکہ اس حملے کے مرتکب مجرم پر دہشت گردی کا الزام بھی نہیں عائد کیا گیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp