عام انتخابات میں بھاری اکثریت لے کر خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ بننے کے دعویدار پرویز خٹک نے شکست کے بعد اپنی ہی جماعت سے استعفیٰ دیا اور اب صحت کے مسائل کی وجہ سے اسلام آباد میں آرام کر رہے ہیں۔
9 مئی کے پر تشدد واقعات کو جواز بنا کر عمران خان کے دیرینہ ساتھی پرویز خٹک نے تحریک انصاف سے الگ ہونے کے بعد نئی جماعت پاکستان تحریک انصاف پارلیمینٹیرین بنا کر صوبے میں مکمل آزادی کے ساتھ الیکشن مہم شروع کی تھی۔ پرویز خٹک اپنی انتخابی مہم کے دوران بھاری اکثریت سے کامیابی اور وزیر اعلیٰ بننے کے دعوے کر رہے تھے لیکن انتخابات میں انہیں بری طرح شکست کا سامنا ہوا۔
وہ خود، ان کے بیٹے اور داماد بھی انتخابات میں ہار گئے جبکہ ان کے ساتھ ہی سابق وزیراعلیٰ محمود خان بھی شکست سے دوچار ہوئے اور ان کی پارٹی پورے صوبے میں صرف 2 ہی نشتیں حاصل کر سکی۔
الیکشن کے نتائج کے بعد ہی پرویز خٹک نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا جس کی وجہ انہوں نے صحت کے مسائل قرار دی۔
پرویز خٹک کب تک آرام کریں گے؟
پرویز خٹک اپنی ہی سیاسی جماعت سے الگ تو ہو گئے ہیں لیکن ان کے قریبی حلقوں کے مطابق وہ سیاست سے الگ نہیں ہوئے۔
ان کے ایک قریبی ساتھی نے بتایا کہ سیاست کے بغیر پرویز خٹک کو ارام نہیں آئے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پرویز خٹک کا اب بھی سیاسی شخصیات سے رابطہ ہے تاہم لوگوں سے ملنا جلنا اب کم ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘پرویز خٹک خفا اور مایوس ہیں کیوں کہ انہیں ایسے نتائج کی توقع نہیں تھی اس لیے اب وہ تنہائی میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیرا علیٰ سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں اور وہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیں گے۔
نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی شہاب الرحمان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پرویز خٹک کے اب اسمبلی جانے کے امکانات تقربیاً ختم ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوشہرہ میں کوئی بھی امیدوار 2 نشستوں پر کھڑا نہیں تھا اور اس وقت وہاں کسی نشست کے خالی ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
شہاب نے بتایا کہ حالیہ انتخابات میں پرویز خٹک کے سیاسی کیریئر کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘میری معلومات کے مطابق الیکشن کے دن شام تک وہ سمجھ رہے تھے کہ وہ وزیراعلیٰ بن جائیں گے لیکن نتائج آنا شروع ہوئے تو انہیں ناکامی کا احساس ہونے لگا اور وہ نوشہرہ سے رات کو اسلام آباد کے لیے نکل گئے‘۔
صحافی کے مطابق پرویز خٹک زیادہ عرصہ سیاست سے دور نہیں رہ سکتے اس لیے وہ مسلسل کوششوں میں ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ الیکشن کے فوراً بعد انہوں نے گورنر بننے کے لیے بھی کوششیں کی تھیں لیکن بات نہیں بنی۔
کیا اب پرویز خٹک کی نظریں سینیٹ پر ہیں؟
شہاب الرحمان کے مطابق اگرچہ وہ اپنی جماعت سے الگ ہو گئے ہیں لیکن اب ان کی نظریں سینیٹ پر ہیں جس کے لیے وہ دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی رابطے کریں گے۔
کیا پرویز خٹک کسی اور جماعت میں شمولیت اختیار کریں گے؟
صحافی عارف حیات کے مطابق بظاہر اب کسی جماعت میں پرویز خٹک کے لیے کوئی جگہ نظر نہیں آرہی۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کا عمل اور شمیولیتوں کا موسم بھی گزر گیا جس کے لیے اب انہیں 5 سال مزید انتظار کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے بعد جب پرویز خٹک نے پی ٹی آئی سے استعفیٰ دیا اس وقت بھی کوئی جماعت انہیں لینے کے لیے تیار نہیں تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’پرویز خٹک کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ دھوکہ دیتے ہیں وفا نہیں کرتے ہیں‘۔
شہاب الرحمان کا بھی یہی خیال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پرویز خٹک پارٹی کے اندر گروپ بنانے، اپنی بات منوالینے اور بلیک میل کرنے کے حوالے سے بھی مشہور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ’جو شخص بری طرح ہارا ہو اور جس کا مستقل قریب میں منتخب ہونے کا کوئی امکان بھی نہ ہو تو اسے کون اپنائے گا‘۔
عارف حیات نے کہا کہ اب لگ رہا ہے کہ پرویز خٹک طویل عرصے تک ارام ہی کریں گے۔
پرویز خٹک کا سیاسی سفر
74 سالہ پرویز خٹک نوشہرہ کے شہر منکی شریف میں اس وقت کے نامور گورنمنٹ ٹھیکیدار کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی سیاسی سفر کا اغاز سنہ 1983 سے بحیثیت رکن ڈسٹرکٹ کونسل نوشہرہ سے کیا تھا جس کے بعد ان کی کامیابیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔
ابتدا میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی سے منسلک تھے لیکن اس کے بعد وہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ کے ساتھی بن گئے اور ان کی اس وقت کی جماعت پی پی پی شیرپاؤ میں شامل ہوئے اور امیر حیدر خان ہوتی کی کابینہ میں وزیر رہے۔
کیا پرویز خٹک کے لیے ایک کنگز پارٹی کا نام تبدیل کیا گیا؟
شہاب الرحمان کے مطابق پرویز خٹک نے عمران خان سے اپنی راہیں جدا کرلینے کے بعد پی ٹی آئی پی کے نام سے نئی جماعت بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن حقیقت میں انہوں نے کوئی نئی جماعت نہیں بنائی تھی بلکہ پہلے سے رجسٹرڈ ایک کنگز پارٹی کا نام تبدل کردیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ پرویز خٹک کے لیے تحریک اصلاحات پاکستان کا نام تبدیل کیا گیا جو قبائلی رہنما حبیب اورکزئی کی جماعت ہے اور اس سے پہلے شادی گل آفریدی کے پاس تھی اور شادی گل کے ن لیگ جانے کے بعد پرویز خٹک کے ہاتھ لگ گئی۔
پرویز خٹک وزیر آب پاشی اور 2 مرتبہ وزیر صنعت و پیداوار بھی رہے۔ سال 2013 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے رکن خیبر پختونخوا اسمبلی منتخب ہوئے اور پی ٹی ائی کے پہلے وزیراعلیٰ بن گئے۔ سنہ 2018 کے عام انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور انہیں تحریک انصاف حکومت میں وزیر دفاع کا قلمدان دیا گیا۔
انہیں سیاسی جوڑ توڑ کا ماہر سمجھا جاتا ہے اور وہ عمران خان کے انتہائی قریبی تصور کیے جاتے تھے۔ تاہم انہوں نے 9 مئی کے پرتشدد واقعات کو جواز بنا کر عمران خان کو خیر باد کہہ دیا اور اپنی الگ جماعت بھی بنا لی تھی لیکن اب اس سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔