یہ کوئی ماضی بعید کی بات نہیں کہ سیاسی جماعتیں عوامی سطح پر چاہے جتنی ناشائستہ زبانیں استعمال کرتی رہی ہوں اور سیاسی اکھاڑے میں چاہے کیسی ہی دھینگامشتی دکھائی ہو لیکن جب بات جمہوری روایات کی پاسداری کی ہو تو انہوں نےکبھی ان روایات کو پامال نہیں کیا۔
باہمی عزت و احترام اور عہدوں کے تقدس کا خیال رکھا جاتا رہا، لیکن بدلتے وقت اور سماجی رویوں کے ارتقا کیساتھ ساتھ ہمارے سیاسی رویے بھی تبدیل ہوئے۔ سیاسی رواداری کو نورا کشتی کا نام دے دیا گیا اور گالم گلوچ کی سیاست کو سیاسی شعور کہا جانے لگا۔
ایک دہائی قبل جب آصف علی زرداری اپنے دور صدارت کی 5سالہ مدت مکمل کرنے والے تھے تو ان کے بدترین سیاسی حریف نواز شریف نے ان کو الوداعی عشائیہ دیا، جبکہ بطور صدر، زرداری صاحب نے بھی اپنے الوداعی عشایے میں نواز شریف کو بطور وزیراعظم مدعو کیا۔
یہ دونوں جماعتیں 3 دہائیوں تک ایک دوسرے کے خلاف سیاسی میدان میں حریف رہیں، ایک دوسرے کو گھسیٹنے اور تختہ دار پر لٹکانے کی باتیں بھی کرتی رہیں، لیکن جب مل بیٹھنے کا وقت ہوتا تو تمام اختلافات کو پس پشت ڈال کر قومی سیاسی معاملات کے حل لیے یکجا ہو جاتیں۔
اس کے بعد تبدیلی کی ہوا چلی، جس کے سونامی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس تبدیلی کے ساتھ ایسا طوفان بدتمیزی آیا جو سماجی رواداری، بھائی چارے اور عزت و تکریم کی سی اقدار کو اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ بڑے سے بڑا عہدہ ان کا مقدر ٹھہرا جنہوں نے بدتمیزی کی تمام حدیں پار کیں، لیکن اس پورےعمل میں افسوسناک پہلو یہ تھا کہ اس بدتہذیبی کو سیاسی شعور کا نام دیا گیا۔
مزید پڑھیں
صدر پاکستان کا عہدہ بلاشبہ وفاق کا سب سے بڑا علامتی عہدہ ہے۔ آئینی طور پر صدر پاکستان، افواج پاکستان کا کمانڈر ان چیف ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صدر پاکستان کےبہت سے اختیارات پارلیمنٹ کو تفویض ہوگئے لیکن اس کے باوجود بھی یہ ریاست پاکستان کا قانونی طور پر سب سے بڑا آئینی عہدہ تصور کیا جاتا ہے۔ صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد یہ بھی آئینی تقاضا ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے نمائندگی کرنے کی بجائے فیڈریشن کی نمائندگی کرتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ کسی ایک جماعت کا نمائندہ نہیں بلکہ پورے پاکستان کا صدر ہوتا ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ عارف علوی صاحب نے بطور صدر کبھی اپنی غیر جانبداری دکھانے کی کوشش نہیں کی۔ ہمیشہ ایک سیاسی جماعت کے نمائندے اور عہدیدار کے طور پر ہی اپنا کنڈیکٹ بطور صدر پاکستان دکھایا۔ ان کے ایسے بے شمار کنڈیکٹ ہیں جو صدر کے عہدے کے شایان شان نہیں تھے، لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے کبھی اپنی سیاسی وابستگی نہیں چھپائی۔ چاہے وہ اپنی پارٹی جس کے ووٹوں سے صدر منتخب ہوئے ان کے اراکین سے ملاقاتیں ہوں یا پارٹی پالیسی کے مطابق آئین سازی میں رخنہ اندازی ڈالنا ہو۔
ایسے بے شمار واقعات ہیں جن میں عارف علوی صاحب نے صدارتی گریس دکھانے کے بجائے ایک پارٹی ورکر کے طور پر ردعمل دیا۔
سب سے پہلا واقعہ تو موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنا تھا۔جب ان کی پارٹی نے فیصلہ کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس دائر کرنا ہے تو انہوں نے بلا تحقیق کے ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کر دیا۔ گو کہ بعد میں ان کے پارٹی سربراہ عمران خان نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا، لیکن اچھا ہوتا کہ عارف علوی صاحب صدر کے عہدے کو پارٹی پالیسی کے لیے استعمال نہ ہونے دیتے۔
اسی طرح عمران خان کیخلاف بطور وزیراعظم جب تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو ڈپٹی اسپیکر کی ایک غیر آئینی رولنگ پر انہوں نے پارلیمنٹ کے تحلیل کیے جانے کی سمری منظور کر لی، جسے بعد میں سپریم کورٹ نے غیر قانونی ڈیکلیئر کر دیا۔
صرف یہی نہیں عارف علوی صاحب قانون سازی کے آئینی عمل میں صدر کی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے میں بھی بری طرح ناکام رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آفیشل سیکرٹ بل اور پاکستان آرمی بل کے معاملے پر جو ایک تنازع سامنے آیا، جس میں صدر علوی نے اپنے ماتحت اسٹاف پر حکم عدولی کا الزام لگایا، وہ دنیا بھر میں اس عہدے کی بے توقیری اور جگ ہنسائی کا باعث بنا۔
ایک طرفہ تماشا یہ ہوا کہ بطور صدر پاکستان، عارف علوی نے ایک منتخب وزیراعظم سے حلف لینے سے انکار کر دیا۔ عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد شہباز شریف سے حلف نہ لیکر صدر عارف علوی نے اپنے عہدے کی توہین کی۔ صدر کو پارٹی پالیسی سے بالا تر ہو کر اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے تھی لیکن افسوس وہ اس عہدے پر رہتے ہوئے کچھ ایسی روایات اور نظائر چھوڑ کر جارہے ہیں جن کے متعلق قوم چاہے گی کہ آنے والے صدور انہیں کبھی نہ اپنائیں۔ آنے والے صدر کو اپنی جماعت کا نمائندہ بن کر نہیں بلکہ پورے ملک کا نمائندہ بن کر اس آئینی عہدے کی ذمہ داریاں ادا کرنی ہونگی۔ الوداع عارف علوی الوداع، افسوس آپ اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے۔