پاکستان مسلم لیگ نواز کی سینئر نائب صدر مریم نواز آج صوبہ پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ منتخب ہو جائیں گی لیکن جولائی 2018 میں جب ان کو اسلام آباد کی احتساب عدالت سے مجموعی طور پر 8 سال قید اور 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنائی گئی تو اس سے قبل مئی 2018 میں انہوں نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت اپنا بیان احتساب عدالت میں ریکارڈ کروایا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ پانامہ فیصلے میں میرے اور میرے شوہر کے خلاف کچھ نہیں لیکن میں جانتی ہوں کہ مجھے اس مقدمے میں کیوں گھسیٹا جا رہا ہے، اس کا تعلق ’آپ کو سبق سکھائیں گے‘ مائنڈ سیٹ سے ہے۔
مزید پڑھیں
ٹرائل عدالت میں کسی مقدمے کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ملزم کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت اپنا بیان ریکارڈ کرانے کا موقع دیا جاتا ہے جس میں وہ اپنے اوپر لگے الزامات کا نہ صرف دفاع کرسکتا ہے بلکہ ان حالات و واقعات کو بھی بیان کرسکتا ہے جن میں اس پر الزام لگا۔
مریم نواز اپنا 342 کا بیان پرنٹڈ فارم میں لے کر عدالت آئیں تھیں جو کچھ اردو اور کچھ انگریزی زبان میں تھا، لیکن اس کے بعد انہوں نے قریباً ڈیڑھ صفحہ ہاتھ سے لکھا، اور لکھے ہوئے مواد میں کچھ ترامیم بھی کیں۔ مریم نواز نے اپنے ہاتھ سے لکھا کہ ’آپ کو سبق سکھائیں گے‘ مائنڈ سیٹ ان لوگوں کے خلاف استعمال ہوتا ہے جو ظلم اور ناانصافی کے خلاف کھڑے ہونے کی جرات رکھتے ہیں، جو کسی نہ کسی بہانے سے، چاہے کرپشن، مذہب یا غداری کے الزامات کے تحت اس گلے سڑے نظام کے ذریعے ایک منتخب وزیراعظم کو گھٹنوں پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
مزید لکھا کہ ایک منتخب وزیراعظم کو بے عزت کرتے ہیں، ہراساں کرتے ہیں دباؤ ڈالتے ہیں اور اگر کوئی وزیراعظم 1973 کے آئین میں دیے گئے اختیارات استعمال کرنے کی کوشش کرے تو اسے اپنا مطیع بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مریم نواز نے پانامہ جے آئی ٹی کے بارے میں کہا کہ اس مقدمے میں مجھے الجھانے کے لیے اس نے جعلی شہادتیں بنائی ہیں اور ایسا اس لیے کیا گیا کہ میں اس سازش کو بے نقاب نہ کر دوں۔
مریم نواز نے یہ بھی لکھا کہ ’میں جانتی ہوں کہ مجھے اس مقدمے میں کیوں الجھایا جا رہا ہے، مجھے کیوں واٹس ایپ کالز والے جے آئی ٹی کے سامنے بار بار پیش ہونا پڑا، میں جانتی ہوں یہ ریفرنسز کیوں قائم کیے گئے، مجھے معلوم ہے، میں 70 سے زائد پیشیاں کیوں بھگت چکی ہوں اور یہ سلسلہ ابھی تک کیوں جاری ہے؟ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ مجھے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا اپنی والدہ سے دور کیوں رکھا جا رہا ہے۔‘