نوازشریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز کے بعد اب تخت پنجاب نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کے سپرد کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی خاتون پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھال رہی ہیں۔
خاندان کے تمام وزرا اعلیٰ کی ترجیحات میں انفراسٹرکچر سرفہرست رہا ہے جس کی بنا پر مسلم لیگ نواز نے پچھلے 35 برسوں سے پنجاب کو اپنی سیاست کو قلعہ بنائے رکھا اور اکلوتی حریف جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو سندھ کی سیاست تک محدود کر کے رکھ دیا۔ بہت کوششوں کے باوجود پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنی جگہ بنانے میں ناکام رہی۔ 30 اکتوبر 2011 کے جلسے کے بعد تحریک انصاف نے اپنے آپ کو ملک کے سب سے بڑے صوبے میں ایک مضبوط حریف کے طور پر منوا لیا۔
مزید پڑھیں
عمران خان نے شریفوں پر شدید تنقید کی کہ ان کی جماعت بڑے منصوبے کمیشن کھانے کے لیے لگاتی رہی ہے جبکہ تعلیم، صحت، روزگار اور بالخصوص نوجوانوں کے مسائل پر کوئی دھیان نہیں دیا گیا۔ اگرچہ تحریک انصاف کے ساڑھے 3 سالہ دور میں پنجاب میں کوئی خاص کام نہیں ہوسکا اور دوسسرے صوبوں کے لیے ہمیشہ سے مثال بننے والے صوبے میں کوئی ترقیاتی منصوبے نہ لگائے جاسکےلیکن ان کی جماعت آج بھی ایک سخت حریف کے طور پر مسلم لیگ نواز کے سامنے کھڑی ہے اور حالیہ انتخابی نتائج نے مسلم لیگ نواز کو سخت پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ مریم نواز اپنی پارلیمانی سیاست کا آغاز ہی وزارت اعلیٰ کے عہدے سے کررہی ہیں۔ ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج تحریک انصاف کی پنجاب میں تیزی سے بڑھتی مقبولیت ہوگا۔
شہباز شریف کی انتظامی امور پر گرفت اور ترقیاتی منصوبوں کی بھرمار نے انہیں ملک کا مقبول ترین وزیراعلیٰ بنا دیا۔ دوسرے صوبوں میں ان کی ‘شبانہ روز’ محنت اور تیزرفتاری کی مثالیں دی جانے لگیں۔ مسلم لیگ کے زیادہ تر رہنماؤں کا خیال ہے کہ پارٹی کی مقبولیت میں شہباز شریف کا بڑا ہاتھ ہے۔
چودھری پرویز الہٰی کی وزات عالیہ کے دوران عمل میں لائے گئے ایمرجنسی سروس 1122، وارڈنز، اسپتالوں میں مفت ایمرجنسی کی سہولت، اسکولوں میں مفت نصابی کتب کی فراہمی، صوبے کی شاہراہوں پر پولیس چوکیوں کا نظام جیسے منصوبوں نے مقبولیت حاصل کی اور ان میں بیشتر منصوبوں کی تقلید دوسرے صوبوں کو بھی کرنی پڑی۔
اب معمہ یہ ہے کہ سب تیزرفتاریاں اور ترقیاتی منصوبے موٹرویز، سڑکیں، انڈرپاسز، بجلی کے کارخانے، اسپتال، دانش اسکول، ہمسایوں سے تعلقات کی بہتری کی کوششیں، سی پیک اور دہشتگردی کے خاتمے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے بعد پی ڈی ایم کے دور حکومت نے سب ملیا میٹ کرکے رکھ دیا۔ مسلم لیگ نواز آج ایک دوراہے پر کھڑی ہے اور تمام قیادت ایک گہری سوچ میں مبتلا ہے کہ تحریک انصاف کا مقابلہ کیسے کرے۔
مریم نواز پنجاب میں اپنے نکات پیش کرچکی ہیں اور ان کی پارٹی اپنا منشور بھی دے چکی ہے۔ مگر ملک کے معاشی حالات بہت جلد سدھرنے والے نہیں ہیں اور آنے والی حکومت کو مزید سخت معاشی فیصلے کرنے پڑیں گے جن کا تعلق براہ راست عوام سے ہوگا جو پہلے ہی مہنگائی کے گہرے کنویں میں گرچکے ہیں اور ان تمام سخت معاشی اقدامات کا اثر پنجاب پر بھی پڑے گا۔
کچھ عرصہ قبل خواجہ سعد رفیق کی قومی اسمبلی میں تقریر جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ آگے ایسا دور آنے والا ہے کہ کوئی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہو گا وہ دور اب دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پیپلز پارٹی نے سارا بوجھ نوازلیگ پر ڈال کر وفاقی کابینہ کا حصہ بننے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
ان حالات میں مریم نواز کی مشکلات بڑھیں گئی ہیں کہ وہ عوام بالخصوص نوجوانوں کے لیے کیا اقدامات کریں کہ ان کی پارٹی دوبارہ سے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکے۔ حمزہ شہباز کے بعد نواز لیگ کا یہ دوسرا تجربہ ہے کہ پارٹی کی قیادت اگلی نسل کو منتقل کی جاسکے۔ اس سے قبل شہباز شریف کے وزیراعظم ہوتے ہوئے حمزہ شہباز کو پنجاب کا وزیراعلیٰ لگانے پر پارٹی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ پارٹی کا خیال ہے کہ حمزہ شہباز کا تجربہ کامیاب نہ ہوسکا۔ اب ساری امیدیں مریم نواز سے وابستہ ہیں کہ شاید وہ خاندانی سیاست کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہوجائیں۔