مہار پے بس نہ چلے تو انٹرنیٹ کے کان مروڑ دو

منگل 27 فروری 2024
author image

وسعت اللہ خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کوئی بھی حکومت نوکریاں دینے کے جتنے بھی وعدے کر لے۔ سنہ 2000 سے پہلے پیدا ہونے والے تو اس وعدہ گیر جھانسے میں آ جاتے تھے۔ مگر اکیسویں صدی میں ہوش سنبھالنے والی پیڑھی اچھے سے جانتی ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔

ایسے ملک میں جہاں ٹیکسوں سے اکٹھا ہونے والا 58 فیصد ریونیو  131 ارب ڈالر مالیت کے قرضوں کی قسط اور سود میں نکل جاتا ہو۔ اس کے بعد انتظام و دفاع کے اخراجات نکال کے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل ہوشربا اضافے سے جوج رہی معیشت کے پاس بچتا ہی کیا ہے کہ جس سے مطلوبہ روزگار پیدا کر سکے۔ گنجا نہائے گا  کیا نچوڑے گا  کیا۔

سرکار تو خود ایک ہی بندے کی جگہ 4،4 پال رہی ہے۔ ایک پرچی پر، 2 پیسے پر اور ایک کسی نہ کسی کوٹے پر۔ جبکہ دودھ دینے والی کرسیوں پر حاضر و ریٹائرڈ  ڈائنوسار اکڑوں بیٹھے ہیں۔ آخر ان کے بھی عزیز و اقارب اور دوست اور ان کے بچے ہوں گے۔ اس لوٹ سیل کے بعد بھی جو آسامیاں بچ جائیں وہ میرٹ پر یقین رکھنے والے مورکھوں کے لیے ہیں۔ ہمت ہے تو اٹھا لو۔ اللہ اللہ خیر صلا۔

ایسا ملک  جہاں ہر سال آبادی میں اضافے سے  ایک نیا نکاراگوا جنم لے رہا ہو۔ وہاں ایک گھونگھا رفتار معیشت آخر کتنوں کو کھپا لے گی۔ وہ تو بھلا ہو موبائل فون اور ایپس کے بل پر چلنے والی ڈیجیٹل معیشت کا جس نے لاکھوں نوجوانوں کا بھرم رکھ لیا ہے۔

اس وقت آن لائن فری لانسنگ سے 8 لاکھ کے لگ بھگ پاکستانی شہری وابستہ ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ تعداد میں وہ نوجوان جو نسبتاً کم پڑھے لکھے ہیں موبائل ایپس یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز (یو ٹیوب، فیس بک، انسٹا گرام، ٹک ٹاک وغیرہ)  کے بل پر 2 وقت کے نان کا  آسرا پیدا کرنے کی کوشش میں لگے پڑے ہیں۔

بھلے کیب سروس ہو یا فوڈ ڈلیوری یا کوریئر سروس  یا پھر آن لائن ٹرانزیکشن کے چھوٹے چھوٹے کھوکھے یا پھر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے کپڑوں ، جیولری اور پھل سبزی سمیت کم سرمایہ کاری والے آئٹمز کی خرید و فروخت۔ یہ سب کا سب انٹرنیٹ  کنکشن سے جڑا ہوا ہے۔

ریاست ایک طرف تو اپنے تئیں ڈیجیٹل معیشت کی سب سے بڑی وکیل ہے مگر انٹرنیٹ کی گردن پر بھی اسی کا آہنی ہاتھ دھرا ہے۔ جب بھی سرکار یا کسی بالاِ سرکار ادارے کو  امن و امان یا سیاست سے جڑا چھوٹا بڑا خطرہ یا کوئی اسکینڈل اچھلنے کا خدشہ محسوس ہوتا ہے۔ پہلا ہاتھ انٹرنیٹ سروسز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے گلے پر جاتا ہے۔

اگر کسی ایک دن پاکستان کے 4، 5 بڑے شہروں میں  نیٹ اور موبائل سروسز معطل ہو جائیں تو ڈیڑھ سے 2 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ پورے ملک میں کئی کئی دن تک بودے جواز بتا کے نیٹ سروسز معطل ہوں تو سوچیے لاکھوں لوگوں کے معاشی نقصان کا حجم کیا ہو گا۔

اور نقصان صرف معیشت کا تھوڑی ہوتا ہے۔ بیرونی سرمایہ کار اور آن لائن پلیٹ فارمز پر کام دینے والوں کا اعتبار بھی اٹھتا چلا جاتا ہے۔ اس تناظر میں سوچیے کہ  اگر پچھلے سال 6 بار انٹرنیٹ کی بڑے پیمانے پر قومی معطلی اور درجنوں بار چھوٹی چھوٹی رکاوٹیں اور اس سال کے پہلے 2 ماہ میں چار بار یہی عمل دہرایا جائے تو ڈیجیٹل دہاڑی داروں اور انہیں اندرون و بیرون ِ ملک سے کام دینے والوں پر کیا بیتتی ہو گی۔

ویسے بھی  بکثرت انٹرنیٹ سروسز معطل یا محدود کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان ماشاء الله اس وقت تیسرے پائیدان  تک تو پہنچ ہی گیا ہے۔

ان حالات میں بھی اگر پاکستان آن لائن فری لانسنگ ورک کی عالمی فہرست میں اپنی جواں نسل کے طفیل چوتھے پائیدان پر قدم جمائے ہوئے ہے تو سوائے معجزے کے اور کیا ہے۔

اگرچہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اس نہج پر آ چکی ہے کہ حکومتیں پوری نیٹ سروس معطل کرنے کے بجائے سرجیکل سہولت کے ساتھ ٹارگٹڈ معطلی کا ہتھیار استعمال کر سکتی ہیں۔

مگر ہمارے ہاں انٹرنیٹ ٹریفک کنٹرول یا معطل کرنے کے پیچھے بھی وہی ذہنیت ہے جو کسی ناپسندیدہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں  کی ہے۔ یعنی سڑک پر 2 ضبط شدہ ٹرک آڑے ترچھے  کھڑے کر دو۔ حتی کہ ایمبولینس کے گزرنے کی جگہ بھی نہ بچے۔ لو جی مسئلہ تو حل ہو گیا۔ بھلے لاکھوں شہری جائیں بھاڑ میں۔

عام طور پر سمجھا جاتا کہ انٹرنیٹ کی بحالی و معطلی کے اقدامات پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی  وزارتِ داخلہ کے کہنے پر کرتی ہے۔ مگر  اکثر پی ٹی اے اور وزارت داخلہ کو بھی علم نہیں ہوتا کہ کس نے انٹرنیٹ کی ٹریفک پر اپنا دستِ شفقت پھیر دیا۔ صحافی جب متعلقہ سول اداروں یا وزارتوں سے رابطہ کرتے ہیں تو آج کل یہی جواب ملتا ہے کہ ہم نے تو ایسا کچھ نہیں کیا۔ آپ دیکھیں کہ کہیں آپ کے کنکشن میں تو کوئی مسئلہ نہیں۔

اور پھر یہی حکومتی عمل دار انٹرنیٹ کی معطلی کی صفائی پیش کرنے کے بھی کام آتے ہیں۔ وہ سارے جہان کی اٹائیں سٹائیں کرتے ہیں مگر یہ کبھی نہیں بتاتے کہ اگر وہ اس کے پیچھے نہیں تو پھر کون سا زکوٹا جن یہ سب کر رہا ہے۔

شفافیت نہ ہو تو الفاظ کھوکھلے چنے بن جاتے ہیں۔ اب تو یہ عالم ہے کہ سرکاری تاویل اگر مبنی بر سچ بھی ہو تب بھی ٹھیلے والے سے لے کر موبائل فون سے مسلح رکشہ چالک تک حکومتی وضاحت پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ ایسے میں کون بیرونِ ملک گورا کالا مورکھ یہ اشتہار سنے گا کہ آئیے پاکسان میں سرمایہ لگائیے۔ یہاں آپ کی منافع بخش  انویسٹمنٹ محفوظ رہے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp