یا کام کرلو یا تصویر بنوا لو

منگل 5 مارچ 2024
author image

وسعت اللہ خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

میں نے جتنی بھی کچی پکی تاریخ پڑھی ہے اس میں کہیں ذکر نہیں کہ اکبرِ اعظم یا اورنگ زیب محل کے پچھلے دروازے سے نکل کے کسی سرائے میں بیٹھ کے مسافروں کی تکالیف سنتے تھے۔ نپولین بھیس بدل کے  انڈوں کے بھاؤ معلوم کرتا تھا۔ جناح صاحب دھوتی سلوکا پہن کے کراچی کی گلیوں میں نکل کے راہ گیروں کو پکڑ پکڑ کے انتظامیہ کی فعالیت کے بارے میں معلوم کرتے پھرتے تھے۔ یا نہرو جی بھک منگے کا میک اپ کر کے چاندنی چوک میں سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں چیک کر کے موقع پر تادیبی احکامات جاری کرتے تھے۔

وجہ کیا تھی؟ شاید یہ تھی کہ حکمران کو اپنا بنیادی کام چھوڑے بغیر غیر رسمی ذرائع سے رعایا کا حال معلوم رہتا تھا۔ جی حضوریوں کی سب اچھا کی رپورٹ کے متوازی خفیہ وثیقہ نویسی کا نظام بھی جاری تھا۔ یوں حکمران کا ہاتھ عوام کی نبض پر رہتا۔ ابھی رعایا کاری کی جگہ ریاکاری نے نہیں لی تھی اور  نظامِ عدل پر رعایا کا اعتماد بہت حد باقی تھا۔

زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا  کہ کوئی  ہارون رشید ٹائپ خلیفہ محلاتی بوریت سے تنگ آ کے کبھی کبھار ایک آدھ محافظ کے ہمراہ  نکل پڑتا اور پھر اس واقعہ کو خوشامدی مؤرخ سونے کے پانی سے بڑھا چڑھا کے لکھ دیتے تاکہ آنے والی نسلیں سر دھنتی رہیں۔

ہماری مشرقی مبالغہ آرائی کا اندازہ یوں ہو سکتا ہے کہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی نصابی کتابوں تک میں ایک زمانے میں یہ لکھا جاتا رہا کہ سندھ پر حملے کا سبب دراصل لنکا سے بصرہ جانے والے ایک تجارتی جہاز کو دیبل کے قریب لوٹے جانے کی واردات کے دوران ایک عورت کی دوہائی تھی کہ ’اے حجاج ( بن یوسف ) تو کہاں ہے‘۔ یہ دوہائی اوزون کی تہہ چیرتی ہوئی 3 ہزار کلومیٹر پرے بیٹھے حجاج بن یوسف کے کانوں سے جا ٹکرائی اور اس نے فوراً  لشکر موو کروا دیا۔ باقی کا قصہ آپ جانتے ہیں۔ چند برس بعد نصاب سے یہ قصہ خود بخود غائب ہو گیا۔

البتہ جہانگیر کے دور میں محل کے باہر زنجیرِ عدل لگانے کی واقعاتی شہادت ضرور ملتی ہے۔ مگر وہ صرف اہلیانِ آگرہ عرف اکبر آباد کی حد تک تھی۔ یہ زنجیرِ عدل کب لگی، کب تک لگی رہی، کیوں،  کیسے، کہاں غائب ہوگئی۔ مؤرخ چپ ہے۔ مگر عدلِ جہانگیری ضرب المثل ہے۔

پاکستانی حکمرانوں میں بھٹو صاحب غالباً پہلے صاحبِ اقتدار تھے جنہوں نے کھلی کچہریوں کا رواج شروع کیا۔ وہ اکثر المرتضیٰ لاڑکانہ میں کھلی کچہری لگاتے اور موقع پر احکامات صادر کرتے۔ ضیا الحق نے سادگی اپنانے کے لیے شاید 2 مرتبہ سائیکل چلا کے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

شہباز شریف نے البتہ بطور وزیرِاعلیٰ پنجاب بھٹو صاحب کے اتباع میں ماڈل ٹاؤن میں چند کھلی کچہریاں لگائیں۔ پھر سیکیورٹی والوں نے مشورہ دیا ہو گا کہ امن و امان کی صورتِ حال  دیکھتے ہوئے اتنا ’ عوامیانہ پن‘ بھی اچھا نہیں۔ البتہ جالب کے شعر پڑھتے ہوئے بھٹو اسٹائل میں مائیک پھینک دینا، تھانوں اور اسپتالوں پر اچانک چھاپے مارنا یا  لمبے بوٹ پہن کر بارش میں کھڑا ہونے کی حد تک ٹھیک ہے۔ مگر اس ’اچانک بازی‘ کی خبر جانے ہر بار میڈیا کو کیسے پہنچ جاتی تھی؟

یوسف رضا گیلانی کو بھی کسی نے مشورہ دیا کہ کبھی کبھی عوام  میں گھل مل جانا برا نہیں۔ چنانچہ  انہوں نے سنہ 2010 کے سیلاب کے دنوں میں جنوبی پنجاب کے زیرِ اب علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے سرکاری کارندوں کی فعالیت بچشم ِ خود دیکھنے کی ٹھانی۔ ایک اسکول کی عمارت میں قائم  ہنگامی اسپتال کا دورہ بھی کیا۔ مگر کسی کم ظرف نے پہلے سے مقامی بیورو کریسی کو یہ خبر لیک کر دی۔ چنانچہ فٹافٹ چارپائیوں، سفید چادروں، تکیوں اور مریضوں کا بندوبست کیا گیا۔ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں اور مستعد پیرا میڈیکل اسٹاف نے سفید گاؤن پہن کر وزیرِ اعظم کو خوش آمدید کہا اور  کراہتے ہوئے مریضوں کے باری باری درشن کروائے۔ جیسے ہی وزیرِ اعظم صحت و صفائی کے انتظامات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ہیلی کاپٹر میں سوار ہوئے۔ ڈاکٹروں نے گاؤن اتار دیے اور مریض اپنی اپنی چارپائی اٹھا کے گھروں کو چل دیے۔

اس کے بعد  وزیرِ اعلیٰ عثمان ڈار اور ان کے باس عمران خان نے بھی اچانک پنے  کی کوشش کی مگر کچھ زیادہ جما نہیں۔ بلکہ بزدار صاحب جب ساہیوال میں ایک ہی خاندان کو دہشت گرد سمجھ کے سی ٹی ڈی کے ہاتھوں گولیوں سے بھون دیے جانے والے سانحے کے ایک زخمی بچے کی عیادت کے لیے اسپتال پہنچے تو بچہ سو رہا تھا۔ چنانچہ حضورِ والا  سرہانے گل دستہ رکھ کے آگے بڑھ گئے۔ اس حرکت پر سوشل میڈیا نے انہیں آڑے ہاتھوں لے لیا۔

ثاقب نثار غالباً پہلے چیف جسٹس تھے جنہیں اچانک دورے کر کے انتظامی طور پر سخت نظر آنے کی لت پڑی۔ جب تک وہ کسی زیریں عدالت یا اسپتال میں پہنچ کر عملے کی گوشمالی کرتے تب تک سب کام اچھا چلتا رہتا۔ جیسے ہی ان کا اچانک پن ختم ہوتا عدالتی و اسپتالی نظام حسبِ سابق ٹیڑھا ہو جاتا۔

ان دنوں چچا کی بھتیجی لاہور کی حد تک اچانک دورے کی روایت نبھا رہی ہیں۔

کیا ایسے چمتکاروں سے واقعی نظام سیدھا ہو سکتا ہے۔ جی ہاں۔ اتنی دیر ہی سیدھا رہتا ہے جتنی دیر میں برف کا بلاک ٹوٹنے کے بعد دوبارہ جڑتا ہے۔

آج کے حکمران کے بس میں شاید اتنا ہی ہے کہ ادنیٰ درجے کے اہل کاروں کو ڈانٹ دے، خیریت دریافت کر لے یا سر پر ہاتھ رکھ دے۔ چین آف کمانڈ سے کام لینا اور سسٹم کو خودکار طور پر مؤثر بنانا شاید اب کسی کے بس میں نہیں رہا۔

ان اچانک دوروں سے بس اتنا ہوتا ہے کہ متعلقہ اہلکار اور قصیدہ خواں اصل کام چھوڑ چھاڑ کے’اچانک زدہ باس‘  کے اردگرد حفاظتی حلقہ بنا لیتے ہیں اور سائل کا جو کام 5 دن میں نہیں ہو پاتا وہ چھٹے دن بھی نہیں ہو پاتا۔

اس اچانک بازی سے کسی ایک سائل یا چند کا مسئلہ تو شاید حل ہو جاتا ہو مگر یہی توانائی اگر نظام کی درستی پر صرف ہو جائے تو ایسے تماشوں کی ضرورت ہی نہ پیش آئے۔

مشکل بس یہ ہے کہ خاموشی سے نظام کو سیدھا کرنے کے کام سے شاید آگے چل کے  ہزاروں لوگوں کی دعائیں تو مل جائیں مگر تصویر نہیں بنے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp