یہ اگست دو ہزار اٹھارہ کی ایک جمعرات کا ذکر ہے۔ راولپنڈی، اسلام آباد میں شدید حبس کا موسم تھا۔ بدن پسینہ ہی پسینہ تھا۔ دھوپ کی تپش جسم کو جھلسا رہی تھی۔ راولپنڈی کے ایک کونے میں قائم اڈیالہ جیل کے سامنے چند درجن لوگ صبح سے جمع تھے۔ مقصد جیل میں مقیم نواز شریف اور مریم نواز سے ملاقات تھا۔ جیل کی سیکیورٹی بہت سخت تھی۔ ہر ملاقاتی کی کئی مقامات پر جامہ تلاشی لی جا رہی تھی۔ موبائل فون دھروا لیے گئے تھے۔ شناختی کارڈ جگہ جگہ چیک کیے جا رہے تھے۔ بیرونی گیٹ سے آگے تین، چار سو میڑ کا فاصلہ شدید گرمی میں طے کر کے ایک ویٹنگ روم میں جانا نصیب ہوتا تھا جہاں ایک دیوار پر پنکھے کے نام پر ایک تہمت سی لٹکی ہوئی تھی۔ چھوٹے سے انتظار خانے میں کھچا کھچ لوگ بھرے ہوئے تھے۔
یہ سب لوگ ان دو قیدیوں سے ملاقات کے منتظر تھے جن کے نام تک ٹی وی سکرینوں پر لینا گناہ تصور کیے جا رہے تھے، جن پر غداری سے لے کر توہین مذہب تک کے الزامات لگ چکے تھے، جن کا میڈیا ٹرائل اس بری طرح ہو چکا تھا کہ سچ منوں مٹی تلے دب چکا تھا۔ ان قیدیوں میں سے ایک کو دس سال کی قید اور دوسری کو سات سال قید بامشقت کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس خبر کے سنتے ہی کچھ ٹیلی ویژن چینلوں پر بھنگڑے ڈالے گئے، چند پر مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ اڈیالہ جیل کے اس انتظار خانے میں نواز شریف کے چند وزراء بھی تھے، پارٹی کے کارکنان بھی، چند پرانے وفادار بھی، چند ذاتی ملازم بھی، چند سرکاری اہلکار بھی اور سادہ لباس میں کچھ خفیہ والے بھی۔ ہر لمحہ لگتا تھا کہ ویٹنگ روم میں بہت سی نگاہیں آپ کا تعاقب کر رہی ہیں۔
خدا خدا کر کے ملاقات کا وقت آ گیا۔ یہ ملاقات ون ٹو ون نہیں تھی۔ ایک بڑا کمرہ تھا جس میں پندرہ سے بیس افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ ملاقاتی ان نشستوں پر بیٹھ جاتے تھے۔ سامنے کی نشستوں پر مریم نواز اور نواز شریف بیٹھے تھے۔ اس روز مریم نواز نے سیاہ لباس اور نواز شریف نے نیلے رنگ کا شلوار قمیض پہن رکھا تھا۔ دونوں کے چہروں پر بلا کا سکون تھا۔ ملاقاتیوں میں بہت سوں کا تعلق سیاسی خانوادے سے تھا۔ وہ اپنے لیڈروں کو حراست میں دیکھ کر تڑپ گئے۔ ایک صاحب نے تو اونچی اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا۔ اس موقع پر نواز شریف اور مریم نواز، دونوں نے انھیں تسلی دی۔
اس ملاقات میں نہ مریم نواز نے اور نہ ہی نواز شریف نے ایک دفعہ بھی جیل میں درپیش مشکلات کا ذکر کیا۔ نہ سہولیات کی کمی کا کوئی ذکر کیا۔ بار بار اللہ کا شکر ادا کیا۔ اور سب لوگوں کو دعا کرنے کی تلقین کی۔ میاں صاحب نے البتہ یہ جملہ ایک دفعہ دھرایا ’میں نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا‘۔
یہ ہمیں بہت بعد میں پتہ چلا کہ ان دنوں مریم نواز کے باتھ روم میں خان صاحب نے کیمرے نصب کروائے ہوئے تھے۔ نواز شریف کو ادویات نہیں پہنچنے دیتے تھے۔ آدھی رات کو مریم نواز کے کمرے میں کئی مرد گھس جاتے اور شب خوابی کے لباس میں ان کی وڈیوز بناتے۔ ان کی والدہ کے انتقال سے پہلے ان کی بات نہیں کروائی گئی۔ ایک جانب ماں تڑپتی رہی اور دوسری طرف بیٹی بلکتی رہی مگر عمران خان اور اس وقت کی انتظامیہ کو ذرا ترس نہیں آیا۔ ظلم کا چلن جاری رہا، جبر کی روش جاری رہی۔
وقت کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ گزر جاتا ہے۔ کل کی قیدی آج کی وزیر اعلیٰ پنجاب بن چکی ہیں۔ بارہ کروڑ عوام کے مستقبل کا فیصلہ اُس عورت کے ہاتھ میں ہے جسے تباہ کرنے کی عمران خان نے ہر طرح سے کوشش کی۔ آج وقت ایسا پلٹا کہ عمران خان جیل میں قید ہیں، تحریک انصاف والے معافیاں مانگنے پر لگے ہوئے ہیں، انتخاب جیتے ہیں مگر منہ میٹھا کر سکتے ہیں نہ خوشی منا سکتے ہیں۔ دوسری جانب جس کا سیاسی کرئیر ختم کرنے کی کوشش کی گئی وہ آج حکمران ہے۔ معاف کر دینے کی پوزیشن میں۔ خدا کی بھی کیا حکمتیں ہیں۔
پنجاب ہمیشہ سے مسلم لیگ ن کی جاگیر رہا ہے۔ نواز شریف ہوں یا شہباز شریف، پنجاب کی سیاست شریف خاندان کے گرد ہی گھومتی ہے۔ مریم نواز شریف خاندان کی پہلی خاتون ہیں جنہوں نے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا ہے۔
یہاں ان کی ذمہ داری دوہری ہے۔ مسلم لیگ ن کا نعرہ ہمیشہ سے گورننس رہا ہے۔ اگر مریم نواز اس میں کامیاب ہوتی ہیں تو پارٹی بھی پھولے پھلے گی اور ن لیگ کی سیاست بھی۔ لیکن اگر مریم نواز شہباز شریف سے جوہر دکھانے میں کامیاب نہیں ہوتیں تو ان کی سیاست تو ڈوبے گی سو ڈوبے گی، ساتھ میں ن لیگ کا آخری قلعہ بھی ڈھے جائے گا۔
مریم نواز کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان کو مشورہ دینے والے لوگ بہت جہاندیدہ ہیں۔ پرویز رشید ان کے سیاسی اتالیق ہیں، نواز شریف ان کی سیاست کے محور ہیں۔ اور شہباز شریف ان کے وزیر اعظم ہوں گے۔ اس سے بہتر ماحول کسی کا مقدر نہیں ہو سکتا۔ اب انہیں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہے۔
ہمارے لوگ ہر حکمران سے بہت سی امیدیں وابستہ کرتے ہیں، بہت سے خواب دیکھتے ہیں۔ ذرا سی توجہ سے، نظر کرم سے انہیں یوں لگتا ہے کہ ان کے سب خواب پورے ہو گئے لیکن اگر ان لوگوں کو نظر انداز کیا جائے تو ان کے خواب ٹوٹ جاتے ہیں، ان کی امیدیں خاک میں مل جاتی ہیں۔ انہیں اپنے ہیرو، زیرو ہی نہیں زہر بھی لگنے لگ جاتے ہیں۔ مریم نواز کو کسی نصیحت کی ضرورت نہیں۔ بس! یہی کہنا مقصود ہے کہ لوگوں کے خواب نہ ٹوٹنے دیں، لوگوں کے سپنے نہ بکھرنے دیں۔ یہ لوگ انہی خوابوں، سپنوں اور امیدوں کی وجہ سے زندہ ہوتے ہیں۔ خواب، سپنے اور امیدیں ختم ہو گئیں تو یہ مر جائیں گے۔