بات تو مجھے مریم نواز اور عمار مسعود پر کرنی ہے لیکن بہتر ہو کہ پہلے ایک بات بزرگوں کی سن لی جائے۔
یہ فروری 1989ء کی بات ہے، اطلاع ملی کہ میر غوث بخش بزنجو کا انتقال ہوگیا۔ انتقال کی خبر کے ساتھ وصیت کی کچھ تفصیلات بھی سامنے تھیں۔ حکم تھا کہ ‘میری تدفین میرے اپنے علاقے میں کی جائے یعنی جہاں میں پیدا ہوا اور جہاں میرے لوگ ہنستے بستے اور روتے گاتے ہیں’۔
مختصر نصیحت میں یہ ہدایت بھی شامل تھی کہ میری میت بلوچستان ضرور لے جائی جائے لیکن اس سے قبل اسے لیاری کے گلی کوچوں سے گزارا جائے کہ یہ کراچی کا وہی کوچہ ہے جہاں میرے بلوچ بستے ہیں اور جب جب میں نے حریت فکر کا نعرہ بلند کیا، ان لوگوں نے کسی تردد کے بغیر میرا ساتھ دیا۔ میں کسی آزمائش سے گزرا تو یہ میرے ساتھ تھے۔ اپنے لوگوں کے حقوق کی جدوجہد میں کوئی کامیابی میرا مقدر بنی تو یہی لوگ تھے جنہوں نے مجھے سر آنکھوں پر بٹھایا۔
آباد اور ویران راستوں سے جنازے گزرتے ہم نے دیکھے ہیں۔ بھر پرا شہر ہو تو کسی نے دیکھا، کسی نے نہ دیکھا۔ مادیت کی طرف سفر کرتے ہوئے کسی قصبے میں ایسا واقعہ ہو گزرا تو کچھ لوگ احترام سے کھڑے ہوگئے، کچھ ساتھ ہوگئے۔ جنازہ گزر گیا تو کوئی انا للہ پڑھ کر خاموش ہوگیا، کسی نے کہا کہ اللہ بخشے بھلا آدمی تھا مگر اس روز لیاری کے مناظر دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کوچے کی کچی پکی گلیوں اور سڑکوں پر لوگوں کا اژدھام تھا۔ روتے اور بلکتے ہوئے لوگ مرنے والے کی ایک جھلک دیکھنا چاہتے تھے۔ ایسی مقبولیت پروردگار قسمت والوں کو دیتا ہے۔
جس دم میر صاحب کے انتقال کی خبر ائی، میں مدیر ‘تکبیر’ محمد صلاح الدین شہید کے دفتر میں تھا۔ وہ کہنے لگے کہ پرچے کا سرورق یہی ہوگا اور اس واقعے کی پوری تفصیل جزیات کے ساتھ رپورٹ کی جائے گی۔ صلاح الدین صاحب دائیں بازو کے معروف اور مہم جو ایڈیٹر تھے۔ پرچہ فروخت کرنے یا ہمارے زمانے کی اصطلاح کے مطابق ریٹنگ کے لیے اصولوں پر سمجھوتہ ان کی سرشت میں نہیں تھا۔ میر صاحب کے انتقال پر ان کا طرزِ عمل بلکہ ایک طرح کی جذباتیت میرے لیے حیرت انگیز تھی۔
جذباتی کا لفظ میں نے یہاں یوں استعمال کیا ہے کہ میر صاحب کے انتقال اور وصیت کی خبر انہوں نے میرے سامنے سنی۔ یہ میرا گمان نہیں حقیقت ہے کہ اس دم میں نے ان کی آنکھیں موتیوں سے چمکتی ہوئی دیکھیں۔ نظریاتی تقسیم کی افراط و تفریط میں ہمارے سماج کو آج ہی تقسیم نہیں کیا، یہ مرض اس سے پہلے بھی موجود تھا۔ یہی پس منظر تھا جس کے سبب میرا خیال تھا کہ بات انا للہ سے شاید آگے نہ بڑھے۔ یہ درست ہے کہ ہمارے بزرگ ہم لوگوں سے زیادہ وضع دار تھے اور وہ اپنے نظریاتی اور سیاسی اختلافات کو رشتوں میں رکاوٹ نہیں بننے دیتے تھے لیکن اس کے باوجود ‘تکبیر’ جیسے پرچے کا یہ اہتمام میرے لیے ناقابلِ فہم تھا۔
یہ ناقابلِ فہم بات میرے لیے قابلِ فہم تب بنی جب صلاح الدین صاحب نے مرحوم میر صاحب پر لکھا اور بتایا کہ مرنے والے کا نظریہ اپنی جگہ لیکن اس شخص کی خوبی یہ ہے کہ اس نے اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ کیا اور نہ کبھی کسی قربانی سے گریز کیا۔ ایسے لوگوں کی قدر نہ کرنے والا معاشرہ اپنی آبرو سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس قوم پرست کی فکر میں جس کی عظمت کو اس کے نظریاتی مخالفین بھی تسلیم کرتے تھے، ایک بات ایسی بھی ہے جو میرے علم میں آئی تو ان کے ساتھ عقیدت مزید بڑھ گئی۔
میرے دوست ناصر الدین محمود لڑکپن میں ہی ترقی پسند سیاست سے وابستہ ہوئے اور میرغوث بخش بزنجو، معراج محمد خان اور فتح یاب علی خان سے ہوتے ہوئے مسلم لیگ (ن) تک پہنچے۔ ایک بار میں نے ان سے پوچھا کہ یار، تمہارا سفر اورمنزل مختلف ہے، یہ کیا معمہ ہے؟ انہوں نے مجھے ایک عجیب بات بتائی۔ کہا کہ بزنجو صاحب نے اپنے پیروکاروں کو نصیحت فرمائی تھی کہ پنجاب کو بُرا بھلا کبھی مت کہنا۔ تمہارے مسائل کی وجہ پنجابی نہیں کوئی اور ہے۔ دوسری ہدایت انہوں نے یہ کی تھی کہ پنجاب سے جس دن مرکنٹائل طبقے سے سیاسی قیادت ابھر آئے، اس کا ساتھ دینا کیونکہ یہی قیادت چھوٹے صوبوں کو ان کے حقوق بھی دلائے گی اور ملک میں جمہوریت کا استحکام بھی یقینی بنائے گی۔ ناصر نے بتایا کہ میں نے اپنی سیاست کے لیے مسلم لیگ (ن) کا انتخاب کیا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی تھی۔
یہ طویل تمہید دراصل یہ بتانے کے لیے تھی کہ میرے دوست عمارمسعود نے ‘وی نیوز’ کے لیے مریم نواز کا جو انٹرویو کیا ہے، وہ ناصر کے اسی انکشاف کی تصدیق کرتا ہے جس کا تعلق میر غوث بخش بزنجو کی فکر سے ہے۔
‘وی نیوز’ کے لیے مریم نواز کا انٹرویو کھڑے پانی میں پھینکا جانے والا وہ پتھر ہے جس سے اڑنے والی چھینٹیں آمد بہار کی خبر دیتی ہیں۔ مریم نواز نے جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کا مطالبہ کیا ہے۔ کیوں کیا ہے؟ یہ کوئی راز نہیں۔ میر غوث بخش بزنجو نے جو کچھ کہا تھا، یہ اسی کی تفسیر ہے۔
عمار مسعود کو اپنے انٹرویو میں مریم نواز نے سیدھی سی ایک بات کہی ہے کہ جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل کیا جائے۔ ایسا کرنا کیوں ضروری ہے؟ اس کا جواب ایک ہی ہے کہ آج پاکستان جن سیاسی اور اقتصادی مسائل سے دوچار ہے، اس کی بنیاد اس طرزِ عمل سے پھوٹی ہے جس کے ذریعے ریاست اور آئین و قانون کو موم کی ناک بنا دیا گیا۔ عمران خان نے رجیم چینج کا نعرہ بعد میں لگایا، رجیم چیج دراصل وہ تھی جس کے تحت نواز شریف کو سزائیں دی گئیں اور ایک خاص ماحول پیدا کرکے ایک خاص قسم کے انتخابی نتائج یقینی بنائے گئے جن کے ذریعے عمران خان کو اقتدار کی کرسی پر بٹھایا گیا۔ اس طرح بتدریج پورا ملک داؤ پر لگا دیا گیا۔ پاکستانی تاریخ کے لمحہ موجود میں مریم نواز کا ہدف اسی خرابی کی ایک نمایاں علامت ہے۔ اس صورتحال نے پاکستان کو کئی قسم کے مسائل سے دوچار کیا ہے جن کا مجموعہ 2 علامات ہیں۔
پہلی علامت یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام نے ریاست کو جڑوں سے ہلا کر رکھ دیا اور دوم، معیشت اس سطح پر جا پہنچی جہاں سے اپنے قدموں پر دوبارہ کھڑا ہونا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ یہ دونوں مسائل کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ سب سے پہلے نواز شریف نے ان کی وجوہات کو سمجھا، آواز اٹھائی اور خمیازہ بھگتا۔
نواز شریف کی یہ آشفتہ سری قوم کے 75 برس کے تلخ تجربات کا نچوڑ ہے۔ وہ اقتدار میں آئے تو اسٹیٹس کو پر ایمان رکھنے والے ہمارے دانشوروں کا خیال تھا کہ پاکستان کا دایاں بازو پہلی بار پاپولر ووٹ کے ذریعے اقتدار کے ایوان میں پہنچا ہے، یہ انتظام اب خوب چلے گا لیکن زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ نواز شریف نے ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کردیا۔ نواز شریف کا یہی وہ پہلا اعلان بغاوت تھا جس نے نظریے اور سیاست کے حقیقی داؤ پیچ سمجھنے والے غوث بخش بزنجو جیسے بزرگوں اور نسبتاً اس نوجوان سیاستدان کو ایک صفحے پر یکجا کردیا اور ان کے درمیان ایک ایسا اٹوٹ اتحاد قائم ہوا جس کی بنیاد صرف اور صرف آئین پاکستان، اس کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق حقیقی جمہوریت، شہری آزادیوں اور کسی دباؤ سے آزاد معیشت تھی۔
آج پاکستان جن سیاسی، سماجی اور اقتصادی چیلنجز سے دوچار ہے، اس کی تمام شاخیں اسی درخت سے پھوٹی ہیں۔ ہماری تاریخ میں یہ پہلی بار ہے کہ قومی سطح پر اس عارضے کی شناخت اور اس کے علاج پر یکسوئی پیدا ہورہی ہے۔ یہ یکسوئی عوامی اور سیاسی سطح پر بھی ہے اور ریاست کے بعض اسٹیک ہولڈروں کے درمیان بھی۔ اب ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ ادارہ جاتی سطح پر اصلاحات کی جائیں۔ یہی اصلاحات ہیں جن کا ذکر خواجہ سعد رفیق نے یہ کہہ کر کیا ہے کہ سب سے پہلے قانون کو موم کی ناک بنانے والوں کو آئین کے تابع کیا جائے۔ یہی سبب ہے کہ بدلے ہوئے موسم کی خوشبو پاتے ہی جناب اعتزاز احسن نے چیخ و پکار شروع کردی ہے جو موجودہ دور میں قومی امور میں اسٹیٹس کو برقرار رکھنے والی قوتوں کا ایک نمایاں چہرہ بن چکے ہیں۔
نواز شریف جیسی قومی سطح کی قیادت نے اسی قومی ایجنڈے کو اپنا نصب العین بنایا ہے اور اس پر ڈٹ گئے ہیں۔ مریم نواز کا اعزاز یہ ہے کہ وہ اپنے والد کی عدم موجودگی میں بیداری کی اس تحریک کی زبان بن گئی ہیں اور لاگ لپیٹ کے بغیر کھری کھری بات کہہ رہی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اور صحافتی تحریک میں ‘وی نیوز’ کے لیے عمار مسعود کا یہ انٹرویو اسی لیے تادیر یاد رکھا جائے گا۔