نذیر ناجی کی صحافتی خدمات

جمعرات 29 فروری 2024
author image

شہزاد انور فاروقی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

منفرد صحافی نذیر ناجی نے بھی بالآخر ہتھیار پھینک کر عدم کی راہ لی۔ مرحوم مسعود باری، جو باری علیگ کے صاحب زادے تھے، کے چوبارے پر جمنے والی محفلوں کے شریک ایک ایک کرکے رخصت ہوئے۔ پرانی انارکلی چوک لاہور پر واقع اس بیٹھک میں بہت کمال لوگوں کی شامیں گزرتیں۔ منو بھائی، نذیر ناجی، عباس اطہر، خالد چوہدری، تنویر عباس نقوی ایک زمانے میں وہاں روزانہ شام کو بیٹھتے تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک دو بار حسن نثار اور اداکار عابد علی بھی آئے۔ ہارون الرشید صاحب کا بھی شک ہے۔ ایک خاص وقت کے بعد ان سب کی چہلیں قابل دید و سماعت ہوتیں۔ بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ پھر مسعود باری کی شادی ہوگئی یا ان کے بھائی کی، صحیح سے یاد نہیں۔

اٹھائیس، تیس برس ہوگئے۔ مسعود باری مرحوم ہمارے کولیگ تھے اور سرکولیشن مینجر تھے۔ ان کے والد صاحب بڑی نامی گرامی شخصیت تھے۔ مسعود باری کی شادی غالبا بہت لیٹ ہوئی تھی لیکن ان میں سب سے پہلے انہوں نے ہی رخت سفر باندھا۔ پھر اداکار عابد علی مرحوم نے اوریگا سینٹر گلبرگ میں پروڈکشن کا دفتر بنایا، جہاں پی ٹی وی کے لئے ڈرامہ سیریز ‘پنجرہ’ کا کام ہوتا تھا۔ منو بھائی اس کے مصنف تھے تو وہاں پر بھی کچھ لوگ سرِ شام پہنچ جاتے تھے۔ ی

ادش بخیر روزنامہ ‘صداقت’ کے آغاز پر اس کی بہت بڑی ٹیم تھی۔ اتنی بڑی ٹیم ماضی قریب میں پھر کبھی نہیں دیکھی۔ عباس اطہر، منو بھائی، حسن نثار، خالد چوہدری، سعادت خیالی اور شاید ہارون الرشید صاحب بھی تھے۔ نذیر ناجی صاحب کی شاموں سے متعلق لاہور میں بہت قصے مشہور تھے لیکن ان سے زیادہ قابل اخبار نویس کم از کم میرے مشاہدے میں نہیں آیا۔ روایتی تعلیم نا ہونے کے باوجود ان سے قابل کالم نگار کوئی نہیں تھا۔ وہ ایک موضوع پر کالم باندھتے تو دلائل کے انبار لگا دیتے اور آپ اس دن ان کے خیالات سے متفق ہوئے بغیر نا رہ سکتے اور اس مسلئے پر آپ کے خیالات بھی بالکل وہی ہوجاتے۔ ان سے قائل ہوئے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا تھا مگر یہ کیفیت صرف اس وقت تک کے لیے ہوتی جب تک وہ اس موضوع پر دوبارہ نہیں لکھتے تھے۔ اب کی بار وہ پہلے خیال یا فریق کے مخالف لکھتے اور معلوم یہ پڑتا گویا استدلال ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ یہ قابلیت میں نے ان کے علاوہ اور کسی میں نہیں دیکھی۔ اب کی بار آپ پہلے سے زیادہ مضبوط انداز میں پہلے سے مخالف موقف پر قائم ہوجاتے۔ قابلیت اور ذہانت کا یہ امتزاج شاید و باید۔

شروع شروع میں میرا یہ تاثر تھا کہ وہ چونکہ مقامی سیاست اور سیاستدانوں سے واقف ہیں تو اس لیے یہ صرف اسی ایک میدان کے شہسوار ہیں مگر جب انہوں نے جدید سائینسی تحقیق اور بین الاقوامی سیاست کے بارے میں لکھا تو سچ مچ میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ کیا خوبصورت اور مدلل لکھا۔ ایک مرتبہ ان کی قلمی چشمک بھی دیکھنے کو ملی۔ ناجی صاحب اور عطا الحق قاسمی میں کسی بات پر ٹھن گئی۔دونوں ایک ہی اخبار کے ایڈیٹوریل صفحہ پر شائع ہوتے تھے۔ ‘نظریاتی’ طور پر دونوں ایک ہی سیاسی کیمپ میں تھے، ناجی صاحب ذرا روشن خیال اپروچ اور قاسمی صاحب روایتی مائنڈ سیٹ کے ساتھ رہوارِ خیال دوڑاتے۔ مشق سخن میاں نواز شریف، ان کا انداز سیاست اور فیصلہ سازی پر ہوئی۔ اب فاتح کون رہا کچھ ٹھیک سے یاد نہیں۔

پہلی فرصت میں انہوں نے اپنے اہل خانہ کو سیٹل کر کے غم روزگار سے بیگانہ کیا۔ آخری مرتبہ وہ روزنامہ دنیا میں گروپ ایڈیٹر کے طور پر سرگرم ہوئے تاہم اب ایک لمبے عرصے سے صاحب فراش تھے۔ عباس اطہر یعنی ہمارے پیارے شاہ جی سے ان کی وفات سے دو تین دن پہلے میں نے پوچھا کہ، ‘شاہ جی آپ نذیر ناجی سے اپنے تعلقات کو کیسے بیان کریں گے؟’ یہ سوال میں نے اس لیے کیا کہ میرا چشم دید تھا کہ دونوں کبھی بہت اچھے مراسم پر آجاتے تو کبھی بالکل خاموشی چھا جاتی۔ کچھ سوچنے کے بعد شاہ جی نے کہا کہ پچاس (یا شاید ساٹھ) کی دہائی میں جب میری سرکاری نوکری ختم ہوئی تو میں بے روزگار پھر رہا تھا۔ اس وقت تک ادبی حلقوں میں کجھ نظمیں اور غزلیں پڑھ چکا تھا۔ایک دن نذیر ناجی صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ اب کیا پروگرام ہے۔ میں نے کہا کہ جی نوکری کرنی ہے۔ تو ناجی صاحب نے مجھے پکڑا اور اپنے ساتھ کراچی لے گئے جہاں انہوں نے مجھے روزنامہ ‘انجام’ میں ملازمت کرادی۔ ان دنوں انجام کے ایڈیٹر شوکت صدیقی (خدا کی بستی) تھے اور پھر چل سو چل۔ باقی جو بات آپ پوچھ رہے ہیں تو ان کے ذاتی تعلقات سے کچھ لینا دینا نہیں، وہ محض پروفیشنل معاملات ہیں۔

نذیر ناجی پاکستانی صحافتی تاریخ میں ایک منفرد ویکتا کردار ہیں۔ سیاست، حکومت اور گورننس کے طویل عرصے تک شاہد رہے۔ میرے خیال میں ان کے نام سے کچھ نا کچھ یونیورسٹی کی سیٹ یا وظیفہ منسوب کر کے ان کی صحافتی خدمات کا اعتراف کیا جانا چاہیے تاکہ صحافت کے طالب علموں پر جو ان کا قرض ہے وہ ادا ہوسکے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ قرض کے حوالے سے ہماری قومی تاریخ کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے اور ناجی صاحب بھی بخوبی یہ بات جانتے ہیں۔ لہذا میرے اور دیگر دوستوں کے کالم پر یا اپنے پہلے سے وہاں موجود دوستوں کی محفل پر ہی گزارا کریں!

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp