انڈیا کے علاقے آگرہ میں 13 سال قبل اپنے خاندان سے بچھڑنے والے کم سن بہن بھائی دوبارہ اپنے خاندان سے مل گئے۔
دو ہندوستانی بچوں کا اپنے خاندان سے بچھڑنے کا واقعہ 2010 کو آگرہ میں پیش آیا، جون 2010 کو ’نیتوکماری‘ جسے اس دن کام نہیں مل رہا تھا، نے اپنی بیٹی راکھی پر مایوسی کا غصہ نکالا اور اسے دھات کے چمٹے سے مارا جو وہ کھانا پکانے کے لیے استعمال کرتی تھی۔
راکھی کو ماں سے مار پڑنے کے بعد بیٹی راکھی اور بیٹا ببلو ناراض ہو کر گھر سے بھاگ گئے، دونوں بہن بھائی اس وقت گھر سے بھاگے جب ان کی ماں کسی کام کے لیے باہر نکلی۔
ببلو کا کہنا ہے کہ ‘میرے والد بھی کبھی کبھی مجھے مارتے تھے، کیوں کہ میں ٹھیک سے پڑھائی نہیں کرتا تھا، ماں نے راکھی کو مارا تو وہ میرے پاس آئی اور کہا کہ چلو دادی کے پاس چل کر وہی رہتے ہیں، میں راضی ہو گیا۔‘
راکھی اور ببلو گھر سے نکلنے کے بعد چند کلومیٹر دور جاکر راستہ بھول گئے، ایک رکشہ ڈرائیور نے انہیں ریلوے سٹیشن تک لفٹ دی، ریلوے اسٹیشن پر وہ ایک ٹرین میں سوار ہوئے، جہاں انہیں ایک خاتون نے دیکھا جو بچوں کے خیراتی ادارے کے ساتھ کام کرتی تھی۔
جب ٹرین ان کے گھر سے تقریباً 250 کلومیٹر (155 میل) دور شہر میرٹھ پہنچی تو اس خاتون نے انہیں پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس والے انہیں ایک سرکاری یتیم خانے میں لے گئی۔
ببلو کا کہنا ہے ‘ہم نے پولیس کو بتایا کہ ہم گھر جانا چاہتے ہیں، ہم نے انہیں اپنے والدین کے بارے میں بتانے کی کوشش کی، لیکن پولیس یا یتیم خانے کے اہلکاروں نے ہمارے خاندان کی تلاش نہیں کی۔’
ایک سال تک یہ بہن بھائی یتیم خانے میں ایک ساتھ رہے، پھر الگ ہو گئے، کیوں کہ راکھی کو ہندوستانی دارالحکومت دہلی کے قریب ایک این جی او کے زیر انتظام لڑکیوں کی ایک پناہ گاہ میں منتقل کر دیا گیا، چند سال بعد، ببلو کو ریاست اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں ایک اور سرکاری یتیم خانے میں منتقل کر دیا گیا۔
جب بھی کوئی اہم عہدیدار، خیراتی ادارے کا کارکن یا صحافی یتیم خانے جاتا تو ببلو اسے راکھی کے بارے میں اس امید پر بتاتا کہ وہ اس سے دوبارہ مل جائے گا، 2017 میں ببلو کی کوشش کا نتیجہ نکلا۔
پناہ گاہ کے نئے نگرانوں میں سے ایک نے ببلو کی اس کی بہن کی تلاش میں مدد کرنے کا فیصلہ کیا جب اس نے اسے بتایا کہ اس کی بہن کو دہلی کے قریب لڑکیوں کے کسی بڑے یتیم خانے میں بھیج دیا گیا ہے۔
ببلو کا کہنا ہے کہ ’اس نے نوئیڈا اور گریٹر نوئیڈا (دہلی کے مضافاتی علاقوں) میں ہر ایک یتیم خانے کو فون کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس راکھی ہے، کافی کوشش کے بعد وہ ببلو کا راکھی سے رابطہ ہوگیا۔‘
ببلو نے کہا ہے کہ ’میں حکومت کو بتانا چاہتا ہوں کہ بہن بھائیوں کو الگ کرنا واقعی ظالمانہ فعل ہے، بھائیوں اور بہنوں کو ایک دوسرے کے قریب مراکز میں رکھا جانا چاہیے، انہیں الگ کرنا مناسب نہیں ہے۔‘
جب دونوں بہن بھائیوں کا رابطہ بحال ہوگیا تو وہ اکثر فون پر بات کرتے، لیکن جب بھی بات چیت ان کے خاندان کو تلاش کرنے کی ہوتی تو راکھی کو یقین نہیں ہوتا تھا کہ وہ اپنے والدین کو تلاش کرلیں گے، ’13 سال کوئی کم وقت نہیں ہے اور مجھے بہت کم امید تھی کہ ہم ماں کو تلاش کر سکیں گے۔’
دوسری طرف راکھی کے بھائی ببلو کو پورا یقین تھا کہ وہ اپنے والدین کو تلاش کر لیں گے۔ ‘میں راکھی کو ڈھونڈ کر بہت خوش تھا اور مجھے یہ یقین بھی تھا کہ اب میں اپنی ماں کو بھی تلاش کر سکوں گا۔’
ببلو نے بتایا کہ جس جگہ وہ ٹھہرا تھا، ان میں سے ایک میں دیکھ بھال کرنے والے اور بڑے لڑکے اسے اکثر مارتے تھے، اس نے 2 بار بھاگنے کی کوشش کی لیکن پھر خوفزدہ ہو کر واپس یتیم خانے چلا گیا۔
دوسری جانب راکھی کا کہنا ہے کہ جس این جی او میں وہ پلی بڑھی، اس نے ان کی اچھی دیکھ بھال کی، میں اس سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ سوچتی ہے کہ اگر وہ گھر میں رہتی تو اس کی زندگی مختلف ہوتی۔
راکھی کہتی ہیں کہ ’میرا ماننا ہے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ہمیشہ اچھے کے لیے ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ گھر سے دور میری زندگی کے لیے بہتر ہو۔‘
راکھی کا مزید کہنا ہے کہ ’میں ان(این جی اوز اہلکاروں) سے تعلق نہیں رکھتا تھی لیکن وہ پھر بھی میری بہت اچھی طرح دیکھ بھال کرتے تھے، مجھے کبھی کسی نے نہیں مارا اور میرے ساتھ اچھا سلوک کیا گیا، میں ایک اچھے اسکول میں گئی، مجھے ایک بڑے شہر کے قریب اچھی صحت کی دیکھ بھال اور دیگر تمام سہولیات میسر تھیں۔‘
بہن بھائی کو آپس میں ملانے والے کارکن نریش پارس نے ان کی کیسے مدد کی؟
20 دسمبر کو آگرہ میں مقیم بچوں کے حقوق کے کارکن نریش پارس کو ببلو کا فون آیا جو اب بنگلورو میں رہتا ہے اور نوکری کرتا ہے۔
‘آپ نے بہت سے خاندانوں کو دوبارہ ملایا ہے، کیا آپ میری تلاش میں میری مدد کر سکتے ہیں؟’ ببلو نے اس سے پوچھا۔
مسٹر پارس جو 2007 سے بچوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ کوئی معمولی معاملہ نہیں تھا۔
بہن بھائیوں کو اپنے والد کا نام یاد نہیں تھا اور ان کے حکومت کے جاری کردہ آدھار کارڈ پر ان کے مختلف نام تھے، انہیں کوئی اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس ریاست یا ضلع سے آئے ہیں اور ان کے یتیم خانے کے ریکارڈ کے مطابق وہ چھتیس گڑھ کی وسطی ریاست کے شہر بلاس پور سے ہیں، مسٹر پارس کی بلاس پور میں یتیم خانوں اور پولیس کو کی گئی فون کالز کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔
ایک پیش رفت تب ہوئی جب ببلو کو اسٹیشن کے باہر ایک ڈمی ریلوے انجن دیکھنا یاد آیا جہاں سے وہ ٹرین میں سوار ہوا تھا۔
مسٹر پارس کہتے ہیں، ‘مجھے معلوم تھا کہ یہ ڈمی ریلوے انجن آگرہ چھاؤنی پر ہی ہے۔’
سٹی پولیس کے ریکارڈ پر نظر ڈالنے کے بعد مسٹر پارس نے جگدیش پورہ پولیس سٹیشن کا دورہ کیا، جہاں انہیں معلوم ہوا کہ بہن بھائیوں کے والد نے جون 2010 میں ان کی گمشدگی کی شکایت درج کرائی تھی۔
لیکن جب وہ راکھی اور ببلو کے گھر والوں کو ڈھونڈنے گیا تو اسے معلوم ہوا کہ وہ وہاں کرائے پر رہتے تھے اور وہاں سے چلے گئے تھے۔
راکھی نے تب اسے بتایا کہ اسے اپنی ماں کا نام نیتو یاد ہے، راکھی نے یہ بھی بتایا کہ اس کی ماں کی گردن پر جلنے کا نشان ہے۔
مسٹر پارس اس کے بعد لیبر چوک گئے، آگرہ میں ایک ایسی جگہ جہاں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور ہر صبح کام تلاش کرنے کی امید میں جمع ہوتے تھے، وہاں موجود کچھ مزدوروں نے کہا کہ وہ اسے(نیتو) جانتے ہیں اور وہ پیغام بھیجیں گے۔
جیسے ہی نیتو کماری نے سنا کہ اس کے بچے مل گئے ہیں، وہ پولیس کے پاس گئی اور پولیس نے مسٹر پارس سے رابطہ کیا۔
جب مسٹر پارس نیتو سے ملنے گئے تو اس نے انہیں بچوں کی تصاویر اور پولیس شکایت کی ایک کاپی دکھائی، جب اس نے اسے ببلو اور راکھی سے ویڈیو کال پر جوڑا تو سب نے ایک دوسرے کو پہچان لیا۔
نیتو کماری نے مسٹر پارس کو بتایا کہ انہیں ‘راکھی کو مارنے پر افسوس ہے’ اور ان کوششوں کے بارے میں جو انہوں نے اپنے بچوں کو ڈھونڈنے کے لیے کی تھیں۔
نیتو راکھی نے بتایا کہ ’میں نے کچھ رقم ادھار لی اور ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ کا سفر کیا جب یہ سن کر کہ میرے بچے وہاں سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آئے، میں نے بچوں کی بحفاظت گھر واپسی کے لیے مندروں، مساجد، گرودواروں اور گرجا گھروں میں جا کر دعا کی۔‘
اپنے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ 13 سال بعد ملنے پر ان کی ماں نیتو کماری جذباتی ہوگئی اور کہا کہ ’اسے زندگی کا ایک نیا موقع ملا ہے۔‘
جبکہ راکھی نے کہا کہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی فلم میں ہیں کیوں کہ انہیں اپنی ماں سے دوبارہ ملنے کی کبھی امید نہیں تھی، اپنی ماں سے مل کر بہت خوش ہوں۔‘
ببلو کے جذبات ‘ملے جُلے’ تھے۔
‘اپنی ماں سے دوبارہ ملنے پر ببلو نے کہا ’یہ ناقابل یقین ہے کہ مسٹر پارس کو اپنے خاندان کو تلاش کرنے میں صرف ایک ہفتہ لگا، میں پولیس اور این جی او کے کارکنوں سے ناراض تھا جنہوں نے بار بار درخواست کرنے کے باوجود میری مدد نہیں کی لیکن میں اپنی ماں سے بات کر کے بہت خوش ہوں۔‘
ببلو نے کہا کہ جب اس کی ماں سے فون پر بات ہوئی تو وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ کیوں؟ کیا تم نے مجھے چھوڑ دیا؟ میں نے اس سے کہا ’میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا، میں کھو گیا ہوں۔‘
یتیم خانوں میں پلے بڑھے ببلو نے مجھے فون پر بتایا کہ ‘مجھے ہر روز اپنی ماں کی یاد آتی تھی،اب میں بہت خوش ہوں کہ میں اپنے خاندان کے ساتھ واپس آیا ہوں۔’
دسمبر کے آخر میں ان کے دوبارہ ملاپ کی ویڈیو فوٹیج میں نیتو کو روتے ہوئے دکھایا گیا ہے جب وہ ببلو کے گھر کا استقبال کرتی ہے، اسے زور سے گلے لگاتی ہے اور خدا کا شکر ادا کرتی ہے ‘مجھے اپنے بیٹے کو دوبارہ ملنے کی خوشی دی’۔