روایتی سیاستدان سوچتے ہی رہ گئے کہ کپتان نے یہ کیا کردیا؟

جمعرات 29 فروری 2024
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سیاست اب مارکیٹنگ ہے۔ مارکیٹنگ کو آپ سیل کے ساتھ کنفیوز نہ کریں۔ مارکیٹنگ کمپنیاں اپنی کوئی پراڈکٹ لانچ کرتے وقت کسٹمر کا سروے کرتی ہیں، اس کی ضروریات کا جائزہ لیتی ہیں، اس کی سوچ سمجھتی ہیں، اپنے پاس دستیاب آپشن دیکھتی ہیں۔ اس کے بعد اپنے اہداف کا تعین کرتی ہیں، پھر اپنی آفر سامنے لاتی ہیں اور کسٹمر سنتے دیکھتے ہی سوچ لیتا ہے کہ مجھے بس یہی چاہیے تھا۔

سیاست سکڑ کر ون لائنر آدھے ادھورے جملوں تک محدود ہوچکی ہے۔ ایک لفظ کرپشن، اوپر بندہ ٹھیک ہو تو نیچے سب ٹھیک رہتے ہیں۔ بندہ پوچھے کہ ہمیں تو بتایا پڑھایا گیا کہ اوپر اللہ میاں ہے اور نیچے ہم الٹے کام کرتے۔ لیکن یہ کون کہتا، کسی کا دھیان جاتا تو کہتا۔ ہماری یوتھ کیا چاہتی ہے۔ یہ سب سے پہلے کپتان نے سمجھا۔ ویسے یوتھ کیا چاہتی اور کیا کرتی ہے، اس کا اندازہ آپ نے لگانا ہو تو ٹک ٹاک پر جائیں اور دیکھیں یوتھ کیا کررہی ہے۔

یوتھ سوشل میڈیا پر دنیا بھر سے رابطے میں ہے۔ ساری دنیا کو دیکھتی ہے، خود کو ویسا ترقی یافتہ دیکھنا چاہتی ہے، جیسے دنیا میں ترقی یافتہ لوگ ہوتے ہیں۔ باہر موجود پاکستانی ملک میں موجود اپنے رشتے داروں کو طرح طرح سے متاثر کرتے ہیں اور ان سب کو کپتان نے اپنی طرف متوجہ کیا۔

جب کپتان ان کو راغب کررہا تھا تو شاید ناکام رہتا لیکن تھینکس ٹو میاں محمد شہباز شریف جنہوں نے لیپ ٹاپ تقسیم کرنے شروع کیے۔ پھر سوچا کہ صرف لیپ ٹاپ سے کیا ہوگا انٹرنیٹ ڈیوائس بھی دینی چاہیے۔ یعنی کپتان کے کی بورڈ واریر کو مدد پہنچائی شہباز شریف نے، جس کا اعتراف پی ٹی ائی والوں نے کیا وہ بھی ان کا ایک نام رکھ کر۔

پاکستان میں سندھی اور پختون ایک برابر ہوچکے ہیں۔ سندھی کو جب اقتدار لینا ہوتا وہ پی پی کی بس پکڑتا اور اسلام آباد پہنچ کر حکومت کرتا ہے۔ پختون کئی پارٹیوں میں تقسیم تھا۔ قوم پرست پارٹیاں، اے این پی اور پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی جیسی تھیں۔ مذہبی جماعتیں جو یو آئی اور جماعت اسلامی جیسی، جو خود اپنے بل پر تو اقتدار کے قریب نہیں بھٹک سکتیں، ہاں مگر کسی ڈالے یا بس کی چھت پائیدان پر لٹک کر خوش ہوسکتی ہیں کہ ہم اقتدار کے جھولے لے رہے ہیں۔

پی پی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کی پختونوں میں اپیل محدود رہی۔ پی پی پختون ایریا میں کسی حد تک تو مؤثر رہی لیکن مسلم لیگ (ن) کو تو اتنی توفیق بھی نہیں ہوئی۔

کپتان کے نام میں لگا خان، پختوںوں کا دل لے گیا کہ استاد یہی ہے، بلکہ یہ میں خود ہوں کیونکہ میں بھی خان ہوں۔ پی ٹی آئی نے جتنے عہدے پختونوں کو دیے، جس طرح انہیں اقتدار میں مکمل شمولیت کا تاثر دیا، جیسے خیبر پختونخوا کے ہر کونے سے لوگوں کو نمائندگی دی، اس نے کپتان کی جڑیں وسیع کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاثر کی بات آئی تو کپتان نے تاثر پر بہت کام کیا۔ اہم اور طاقتور رہنماؤں کا وہ حشر کیا کہ وہ اب تک سوچتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہوا کیا اور کیسے۔

آپ کرپٹ کا لفظ ذہن میں لائیں اور بتائیں کہ کس کی تصویر بناتا ہے دماغ۔ اچھا جس کی تصویر بنے اس کا نام نہ لیں۔ وہ خود بھی سوچے تو اپنی ہی فوٹو دکھائی دیتی ہے اسے۔

بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی مسلسل الیکشن جیت رہے ہیں۔ ان کی انگیج منٹ پالیسی دلچسپ ہے۔ یہ انتہا پسندی، تعصب کو ابھارتے اور اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ دوسرا کام یہ کرتے ہیں کہ کسی موضوع یا مسئلے پر خاموشی کو کمزوری سمجھتے ہیں۔ مسئلہ کوئی بھی ہو، وہ اس پر لازمی بیان دیتے ہیں اور پوزیشن لیتے ہوئے اپنا مؤقف برقرار رکھتے ہیں اور اپنی پاور بیس کو ایڈریس کرتے ہیں۔

مودی سے ایک بار کسی رپورٹر نے پوچھا کہ آپ کو گجرات میں مسلمانوں کے مارے جانے پر افسوس نہیں ہوا؟ تو مودی کا جواب تھا کہ آپ کی گاڑی کے نیچے کتا آجائے تو اس کا بھی افسوس ہوتا ہے۔ افسوس کے ایسے اظہار نے مسلمانوں کو مزید رگڑ کر رکھ دیا اور انتہا پسندوں میں مودی کی بلّے بلّے ہوگئی۔

پی ٹی ائی نے آئی ایم ایف کو عمران خان کی ہدایت پر خط لکھا ہے۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی ائی آئی ایم ایف کے کسی پروگرام میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتی۔ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ آپ جس ممبر ملک کے ساتھ لون پروگرام شروع کرنے جارہے ہیں اس کی پالیسی اور ان پر عملدرآمد کی صلاحیت بھی دیکھیں اور کرپٹ پریکٹس پر بھی نظر رکھیں۔ آئی ایم ایف اچھی گورننس، شفافیت، رول آف لا کی بات کرتا ہے تو ان سب کو بھی اپنے پروگرام سے جوڑیں۔ ان سب باتوں کو دیکھنے کے لیے سیاسی صورتحال کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ الیکشن کا ایک آزاد آڈٹ بھی کرانا چاہیے۔ جو قرض دیے جا رہے ہیں، ایسا کرکے ہی ان کی واپسی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔

پی ٹی آئی نے عام تاثر کے برعکس اپنے خط میں آئی ایم ایف کے سامنے خاصے جائز اعتراضات رکھے ہیں۔ اپنا پوائنٹ نوٹ کروایا ہے۔ پارٹی کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ ہر مسئلے کو ایڈریس کیا جائے اور اس پر اپنا مؤقف دیا جائے۔ پاکستان کی روایتی سیاسی جماعتیں اور طاقتور پنڈی بہت سے معاملات کو قالین کے نیچے رکھنا چاہتے ہیں اور ان پر خاموش رہتے ہیں۔

پی ٹی آئی کی بولنے کی پالیسی اور مخالفت کرنا پرانی سیاسی جماعتوں اور پنڈی دونوں کو شرمندہ کراتا ہے۔ اس شرمندگی کو ہی بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے پی ٹی آئی اپنے لیے سہولیات چاہتی ہے۔ جو نہ بھی ملیں تو اس کے مخالف روایتی پاور سینٹر لاچاری محسوس کرتے ہیں۔

ایک طرف عوام کو بتایا جا رہا ہے کہ ہم قرض کے خلاف ہیں اور دوسری طرف آئی ایم ایف سے کہا جا رہا ہے کہ ہم پروگرام میں رکاوٹ نہیں چاہتے۔ ساتھ آڈٹ کا مطالبہ کرکے مخالفین کو بے چین کیا جا رہا ہے۔ روایتی سیاست کے کھلاڑی کپتان کو یہ سب کرتے دیکھ کر اپنی ٹنڈ پر ہاتھ ہی پھیرتے رہ جاتے ہیں کہ یہ کیا ہوگیا اور اب کیا کریں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp