اسلام آباد کا موسم ایسا ہے کہ آپ کو آج کل گرم کپڑے ہی پہننے پڑتے ہیں۔ لیکن سچی بات ہے سردی کا موسم بالکل آخری دموں پر ہے۔ بہار اور نئی حکومت اسلام آباد کے دروازے پر کھڑے ہیں۔ پاکستان میں حکومت کرنا کبھی بھی آسان نہیں رہا۔ البتّہ نئی حکومت کا بہار کے ساتھ آنے کا تذکرہ سُن کر یہ نہ سمجھیں کہ نئی حکومت کے آنے سے بہار آ رہی ہے۔ نئی حکومت کے لیے سیاسی، انتظامی اور اقتصادی سطح پر مختلف قسم کے امتحانات منہ کھولے کھڑے ہیں۔
کم و بیش 15 برس لاہور گزارنے کے بعد میں اسلام آباد آکر بس گیا۔ اب اس بات کو بھی 8 برس بیت چُکے ہیں۔ دوست سوال کرتے ہیں کہ لاہور میں طویل اور بھر پور زندگی گزارنے بعد اسلام آباد میں آپ کا کیسے دل لگ گیا؟
میں جواب میں کہتا ہوں ایک سال تک تو میرا بھی یہاں دل نہیں لگا، پھر میں نے دل لگا لیا۔ جب میں کہتا ہوں کہ اسلام آباد گاؤں کا گاؤں اور شہر کا شہر ہے تودوست پوچھتے ہیں، کیسے؟
جواب دیتا ہوں ہر طرف ہریالی ہے۔ آدھے پونے گھنٹے میں آپ سارا شہر پھر لیتے ہیں۔ تھوڑا دور جائیں تو اسلام آباد کے نواح میں کسی گاؤں میں جا نکلیں۔
اس لمحے بھی سرِِ شام گیس کے ہیٹر کنارے لیپ ٹاپ پر لکھنے میں مصروف ہوں۔ آپ کے اندر کا موسم ٹھیک ہوتو یہ موسم ایسا ہے کہ آپ اس کا لُطف لیے بنا نہیں رہ سکتے۔
صبح اُٹھ کر قریبی پارک گیا تو فرحت کا احساس ہوا۔ گھر واپس آیا تو بیرونِ ملک مقیم ایک جاننے والی ڈاکٹر خاتون کا وٹس ایپ سٹیٹس دیکھا تو پڑھ کر حیران رہ گیا کہ موصوفہ نے مریم نواز شریف کو برا بھلا کہا ہوا تھا، بلکہ بد دعائیں دی ہوئی تھیں۔
سخت کوفت ہوئی۔ سیاسی نظریات سے اختلاف اپنی جگہ مگر ایک خاتون ملک کے سب سے بڑے صوبے کی سربراہی کر رہی ہے تو خوش ہونا چاہیے کہ ایک نیا تجربہ ہو رہا ہے۔ جس طرح محترمہ بے نظیر بھٹو مسلم دنیا اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بنیں تھیں، اسی طرح یہ بھی ملکی تاریخ میں ایک نیا باب رقم ہوا ہے۔ آپ سیاسی اختلافات ضرور رکھیں مگر اسے ذاتی رنجش نہ بنائیں۔ دوسری بات یہ کہ وقت اور کارکردگی خود بتا دے گی کہ کون کتنے پانی میں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ 9 مئی 2023 کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف ایک امتحان سے گزری ہے اور تا حال یہ سفر جاری ہے۔ مگر ایک بات یاد رہے کہ سیاست مکالمے، روا داری، بردباری، افہام و تفہیم اور رستہ نکالنے کا نام ہے۔ الیکشن کے نتیجے میں تحریک انصاف کے لئے جو رستہ نکلا ہے اور آئندہ بھی جو رستے بنیں گے وہ سیاست کے دروازے سے ہو کر ہی نکلیں گے۔
الیکشن سے یاد آیا کہ انتخابات کے روز چہل قدمی کو نکلا تو دیکھا پارک کے ساتھ ہی الیکشن بوتھ بنے ہوئے ہیں اور سامنے پولنگ اسٹیشن۔ ایسے ہی دو تین چھوٹی چھوٹی ویڈیوز بنا لیں اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیں۔
پارک اور میری رہائش کے درمیان ہی ایک گلی میں پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے علی نواز اعوان کا گھر ہے۔ اس دن علی کے گھر اور گلی میں ہو کا عالم تھا۔
اعوان صاحب کے حلقے سے وکیل رہنما شعیب شاہین تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ قومی اسمبلی کے امید وار تھے۔
مجھے خیال آیا کہ آج اگر علی نواز صاحب اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے تو آج وہ بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہوتے اور ہو سکتا ہے ایم این اے بھی منتخب بھی ہو جاتے۔ مگر آج ان کا نام و نشان بھی کہیں نہیں۔ جب وہ ممبر اسمبلی تھے تو ایک روز قومی اسمبلی میں گُھمسان کا رن پڑا ہوا تھا۔ علی نواز صاحب جس دھڑلے سے ننگی گالیا ں اپوزیشن کو دے رہے تھے وہ پوری قوم نے سُنیں۔
کسی نے علی سے کہا کہ آپ گالیاں دیتے ہوئے اچھے نہیں لگ رہے تھے۔
تو جواب تھا خان صاحب نے تو کہا ہے “تم میرے ٹائیگر ہو”۔
کسی نے کہا وہ تو اپنے کُتے کو بھی یہی کہتے تھے۔
یہی بات علی نواز کی گلی میں ریکارڈ کی اور سوشل میڈیا کے سپرد کر دی۔
میرے بچو ں کو ایک بہت قابل اور ملنسار ریٹائرڈ استاد ریاضی پڑھاتے رہے ہیں۔ ایوب اعوان صاحب بھی علی نواز اعوان صاحب کی گلی میں رہتے ہیں۔ ویڈیو کے نیچے انھوں نے کمنٹ کیا ہوا تھا کہ “آپ بھی پٹواری نکلے”۔ کچھ اور بھی اسی طرح کے طعنے مہنے تھے۔ بہرحال میں نے انھیں ایک وائس میسج کیا کہ میں تو ایک سیاسی تجزیہ نگار ہوں اور کسی پارٹی کے خلاف یا حق میں نہیں ہوں۔ کئی روز بعد دیکھا تو انھوں نے میرا پیغام سُنا بھی نہیں تھا۔
فون کیا تو علم ہوا وہ مجھے بلاک کر چکے ہیں۔ دفتر سے ایک روز فون کرکے بات کی اور کہا کہ مجھے آپ کے رویے سے تکلیف ہوئی ہے۔ وہ کہنے لگے مجھے بھی دکھ ہوا تھا، علی نواز بہت مصیبتوں کا شکار رہا، اس کے ڈرائیور کو اُٹھا لیا گیا، وغیرہ وغیرہ۔
میں نے کہا آپ ابھی ایک دو سال پہلے یہاں آئے ہیں۔ میں علی نواز اعوان کو تب سے جانتا ہوں جب وہ اسی یونین کونسل سے چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔ ان سے ملاقات بھی ہوئی۔ ہمیں خوشی تھی کہ نوجوان قیادت سامنے آرہی ہے۔ تحریکِ انصاف نے انھیں اسلام آباد میں میئر کے الیکشن کے لئے بھی نامزد کیا تھا۔ بعد ازاں جب وہ ایم این اے منتخب ہوئے تو وزیرِ اعظم کے مشیرِ خصوصی برائے امور سی ڈی اے بھی رہے۔ گو کہ وہ روپوش بھی رہے اور سختیاں بھی جھیلتے رہے مگر ایک روز استحکامِ پاکستان پارٹی کا مفلر گلے میں ڈالے اخبارات کے پہلے صفحے پر نظر آئے۔
بہرحال الیکشن میں انھیں پی ٹی آئی کی حمایت نہ ملی۔
استحکام ِ پاکستان پارٹی کے نام کے علاوہ کچھ بھی اس کا مستحکم نہ نکلا۔ وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ سیاست بھی انھی کی مستحکم رہتی ہے جو خود کہیں کھڑے رہتے ہیں۔ سیاست کے میدان میں سختیاں بھی جھیلنی پڑتی ہیں۔ اچھا برا وقت بھی آتا ہے۔ برے وقت میں کھڑا ہونا ہی آپ کو لیڈر بناتا ہے۔
بہرحال سیاسی اختلافات کو ذاتی بنانا معاشرے کا افسوسناک پہلو ہے۔ یہ نہیں کہ یہ رویہ صرف پی ٹی آئی کے حمایتوں تک محدود ہے۔ اس وباء کا کم و بیش سبھی سیاسی پارٹیاں شکار ہیں، کچھ زیادہ کچھ کم۔ آپ غیر جانب دار رہیں اور غیر جانب دارانہ تجزیہ کریں تو آپ کو ہومیو پیتھک ہونے کا طعنہ ملے گا۔ کسی پارٹی یا اس کے کسی راہنما کی اچھی بات کی تعریف کریں یا تنقید، دونوں طرح سے کچھ لوگ آپ پر ٹوٹ پڑیں گے۔ بس ٹوٹ پڑنا ہی ان کا کام رہ گیا ہے۔ رواداری، مروّت اور وضع داری کی جگہ تعصبات نے لے لی ہے۔ میں بھی سوچتا ہوں، کیا کیا سوچتا ہوں۔