اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہریار آفریدی کی گرفتاری کے لیے ایم پی او آرڈر جاری کرنے پر ڈپٹی کمشنر اسلام آبادعرفان نواز میمن کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے 6 ماہ قید کی سزا سنا دی۔
اسلام آباد پولیس نے اس پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے آفیشل ایکس پوسٹ پر کہا کہ اسلام آباد پولیس کے افسران انٹرا کورٹ اپیل کریں گے تاکہ فیصلے کو کالعدم کروایا جا سکے۔ اپنی پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد ، ایس ایس پی آپریشنز اور ایس ایچ او عدالت کے حتمی فیصلے تک اپنے عہدوں پر کام کرتے رہیں گے۔
اسلام آباد پولیس کے رد عمل پر صارفین کا رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ کسی نے عدالتی فیصلے پر سوالات اٹھائے تو کسی نے اسلام آباد پولیس کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ان پر توہین عدالت کی کارروائی ہونی چاہیے۔
صحافی حامد میر نے اسلام آباد پولیس کے ٹوئٹ پر رد عمل دیتے ہوئے کہا عدلیہ کے فیصلوں پر کوئی صحافی تنقید کرے تو توہین عدالت لگ جاتی ہے، گرفتار ہو جاتا ہے۔ سرکاری افسران اور پولیس عمل نہ کریں تو قومی مفاد بن جاتا ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ جسٹس بابر ستار کے خلاف فوری طور پر سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی مہم کے پیچھے کون ہے؟
عدلیہ کے فیصلوں پر کوئی صحافی تنقید کرے تو توہین عدالت لگ جاتی ہے گرفتار ہو جاتا ہے سرکاری افسران اور پولیس عمل نہ کریں تو قومی مفاد بن جاتا ہے صاف نظر آ رہا ہے کہ جسٹس بابر ستار کے خلاف فوری طور پر سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی مہم کے پیچھے کون ہے؟ https://t.co/UQ0ZizEJZT
— Hamid Mir حامد میر (@HamidMirPAK) March 1, 2024
عمران افضل راجہ لکھتے ہیں اسلام آباد پولیس کی اتنی ہمت بڑھ چکی ہے کہ عدالتی فیصلوں پر سرعام تبصرے کر رہے ہیں۔ یہ سرکاری محکمہ ہے یا کوئی سیاسی تنظیم؟ ہائیکورٹ کو اس معاملے پر توہین عدالت کی کاروائی کرنی چاہیے۔
ان کی اتنی ہمت بڑھ چکی ہے کہ عدالتی فیصلوں پر سرعام تبصرے کر رہے ہیں ؟؟
یہ سرکاری محکمہ ہے یا کوئی سیاسی تنظیم ؟ ہائی کورٹ کو اس معاملے پر توہین عدالت کی کاروائی کرنی چاہیے۔ https://t.co/4guHxztJXL— Imran Afzal Raja (@ImranARaja1) March 1, 2024
صحافی ثاقب بشیر نے کہا کہ سزا یافتہ ڈپٹی کمشنر اور پولیس افسران اپنے عہدوں پر کام کیسے جاری رکھ سکتے ہیں جب اسلام آباد ہائیکورٹ نے مس کنڈکٹ کے مرتکب قرار دئیے ہیں۔
سزا یافتہ ڈپٹی کمشنر اور پولیس افسران اپنے عہدوں پر کام کیسے جاری رکھ سکتے ہیں ؟ اسلام آباد ہائیکورٹ نے مس کنڈکٹ کے مرتکب قرار دئیے ہیں https://t.co/vuX6H4r5q5
— Saqib Bashir (@saqibbashir156) March 1, 2024
صحافی اسامہ غازی نے طنزاً لکھا کہ اسلام آباد پولیس کا یہ بیان توہین عدالت تو نہیں نا؟ پولیس جس کو چاہے جو مرضی کہہ لے خیر ہے۔
یہ توہین عدالت تو نہیں نا ؟ پولیس جس کو چاہے جو مرضی کہہ لے۔۔ خیر ہے https://t.co/KkVMzLcTQ6
— Muhammad Usama Ghazi (@ghaziusama) March 1, 2024
آنسہ بٹ نامی صارف نے لکھا کہ ہائیکورٹ اسلام آباد کو فوری طور پر آئی جی اسلام آباد کو گرفتار کرنے کا حکم دینا چاہیے اور مکمل تحقیق کرنی چاہیے کہ کس کے حکم پر ٹویٹ کیا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک آئی جی اسلام آباد کو گرفتار کر کے عبرت کا نشان نہیں بنایا جاتا آئین شکنی ہوتی رہے گی۔
ہائی کورٹ اسلام آباد کو فوری طور پر آئی جی اسلام آباد کو گرفتار کرنے کا حکم دینا چایئے ۔ اور مکمل تحقیق کرنی چایئے کس کے حکم پر ٹویٹ کیا گیا۔ جب تک آئی جی اسلام آباد کو گرفتار کر کے عبرت کا نشان نہیں بنایا جاتا آئین شکنی ہوتی رہے گی https://t.co/O0sKLBO2eZ
— آنسہ بٹ (@iamansaarmy) March 1, 2024
واضح رہے کہ توہین عدالت کی کارروائی میں عدالت نے 21 فروری کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ 16 اگست 2023 کو توہین عدالت کی کارروائی شروع ہوئی جبکہ 7 ستمبر 2023 کو ڈی سی و دیگر افسران پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔