ملک میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے بعد حکومتوں کی تشکیل جاری ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں میر سرفراز بگٹی بلا مقابلہ وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئے، اسپیکر بلوچستان اسمبلی کے مطابق میر سرفراز بگٹی کے حق میں 41 ووٹ کاسٹ کئے گئے جبکہ نیشنل پارٹی کے چاروں ارکان اسمبلی نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے پیپلز پارٹی کی جانب سے نامزد وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی سرکاری پروٹوکول میں بلوچستان اسمبلی پہنچے تھے۔ دیگر اراکین اسمبلی کے آنے پر اسپیکر نے وزیر اعلیٰ کے لیے ووٹنگ کا عمل شروع کروایا۔ تمام اراکین اسمبلی نے ووٹنگ کے عمل میں شرکت کی۔
مزید پڑھیں
مقررہ وقت تک سرفراز بگٹی کے مد مقابل کسی امیدوار نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے۔ بلا مقابلہ منتخب ہونے کے باوجود سرفراز بگٹی کے لیے ایوان سے رائے شماری کے ذریعے 33 اراکین کی حمایت حاصل ہونا ضروری تھی، تاہم ان کو 65 میں سے 41 لوگوں کی حمایت حاصل ہوئی۔ بعدازاں سرفراز بگٹی نے عہدے کا حلف بھی اٹھا لیا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کی تقریب حلف برداری میں چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر سیاسی شخصیات نے شرکت کی۔
کوئی نوکری بیچے گا تو ذمہ دار میں ہوں گا، سرفراز بگٹی
اس موقع پر اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے طور پر سرفراز بگٹی نے اپنی پہلی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ملک جن کرائسز میں ہے پیپلزپارٹی ہی اس سے نکال سکتی ہے، پیپلزپارٹی نے ملک کو آئین دیا، سب سے بڑا چیلنج گورننس، دوسرا دہشت گردی اور تیسرا موسمیاتی تبدیلی کا ہے، ایجوکیشن سیکٹر میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے، گھوسٹ اسکولوں کوٹھیک کرکے فنکشنل کریں گے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفرازبگٹی نے کہا کہ صحت کے شعبے کو پبلک پرائیویٹ سیکٹر کے تحت بہتر کریں گے، نوجوان بیروزگاری کی حالت میں ڈگریاں لیکرپھررہے ہیں، 18ویں ترمیم کے بعد تمام ذمہ داری ہمارے اوپر عائد ہوتی ہے، ہم نے اپنے وسائل بڑھانے ہیں کب تک کشکول لیکرپھرتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ دن رات محنت کریں گے، بلوچستان اپنے پیروں پر کھڑا ہوگا، دہشت گردی میں ریاست کے پاس 2 ہی طریقے ہوتے ہیں، حکومت ڈائیلاگ کرے گی اور بار بار کرے گی۔ پہاڑوں پر بیٹھے لوگ مین اسٹریم کا حصہ بنیں گے۔ پہاڑوں پر بیٹھے لوگ بلوچستان کی ترقی میں کردار ادا کریں۔
’بلوچستان کو جو کچھ ملنا ہے وہ پارلیمنٹ سے ملنا ہے، کوئی دہشت گردی کا راستہ نہیں چھوڑے گا تو قانون اپنا راستہ لے گا، جہاں دہشت گردی ہوگی قانون کی بالادستی پر کوئی کمپرومائز نہیں ہوگا‘۔ ہم نے بلوچستان کو ٹھیک کرنا ہے کوئی باہر سے آکر نہیں کرے گا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ آج کے بعد سے بلوچستان میں کوئی نوکری نہیں بکے گی، جو نوکری آئے گی وہ میرٹ پر ملے گی، مثبت اپوزیشن کو ویلکم کریں گے ساتھ لیکرچلیں گے، نوکری بیچنے والوں کا اب گریبان پکڑا جائے گا۔ بلوچستان کے لوگوں کو پیغام ہے میرے دروازے سب کے لیے کھلیں گے۔
’کوئی نوکری بیچےگا تو ذمہ دارمیں ہوں گا لاہورکا کوئی شخص نہیں ہوگا، 16 سے 18 گھنٹے کام کریں گے آپ ہمیں صرف کوئٹہ میں نہیں دیکھیں گے، وفاق کے ساتھ مسائل ضرور ہیں، مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کرینگے‘۔
اس سے قبل سرفراز بگٹی کو مسلم لیگ ن اور بلوچستان عوامی پارٹی کی بھی حمایت حاصل تھی، سرفراز بگٹی جب کاغذات نامزدگی جمع کرانے آئے تو ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تو سب کو ساتھ لیکر چلیں گے اور صوبے کی بہتری کے لیے بھرپور اقدامات اٹھائیں گے۔
اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے لیے صرف میر سرفراز بگٹی نے ہی کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تھے، میر سرفراز بگٹی کے وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے 4 فارم جمع کرائے گئے تھے، تمام کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کی گئی اور درست پائے گئے۔
انہوں نے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے بعد اعلان کیا تھا کہ میر سرفراز بگٹی بلامقابلہ وزیر اعلیٰ بلوچستان منتخب ہوئے ہیں۔ سرفراز بگٹی کو اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور اراکین اسمبلی نے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے پر مبارکباد بھی دی تھی۔