پاکستان کے عام انتخابات میں ملک پر سب سے زیادہ سول حکمرانی کرنے والی مسلم لیگ (ن) کو دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہو سکی، جس کے بعد اسے مجبوراً سیاسی اتحاد کی طرف پلٹنا پڑا، حکومت سازی کے لیے ایک بڑی جدوجہد کے بعد بلآخر سیاسی اتحاد کی چھتری تلے شہباز شریف دوسری بار ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے پھر وزیر اعظم بننے کی ایک خاص وجہ ان کا بطور وزیر اعظم اپنے نسبتاً مختصر دور میں خود کو ایک طاقت کے طور پر ثابت کرنا ہے وہ تقریباً 16 ماہ تک ایک بڑے سیاسی اتحاد ’ پاکستان ڈیموکریٹک الائنس ‘ ( پی ڈی ایم) کو جوڑے رکھنے میں بھی کامیاب رہے ۔
2022 میں شہباز شریف نے ایک ایسے نازک وقت میں اقتدار سنبھالا جب ملک معاشی طور پر تباہ حال تھا، ڈیفالٹ کا خطرہ سر پر منڈلا رہاتھا اور سیاسی قیادت بھی بری طرح الجھی ہوئی تھی، شہباز شریف کی سیاسی حکمت عملی نے نہ صرف ایک نازک اور مشکل اتحاد کو جوڑے رکھا بلکہ 2023 میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایک اہم اور مشکل ترین معاہدے کو بحال کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔
شہباز شریف ملک کی سیاسی تاریخ کے واحد سیاست دان ہیں جو مسلسل دوسری مدت کے لیے پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں۔
اگست 2022 میں 16 ماہ کی مختصر مدت کے لیے وزیر اعظم بننے سے قبل، شہباز شریف، جو اب 24 ویں منتخب وزیراعظم بنے ہیں، ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر جانے جاتے تھے، جو ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں 3 بار وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔
تجزیہ کاروں اور سیاسی پنڈتوں کے مطابق 2024 کے عام انتخابات سے قبل ان کے بڑے بھائی نواز شریف چوتھی بار ملک کے وزیر اعظم بننے کے لیے سب سے زیادہ موزوں اور پسندیدہ امیدوار تھے۔
تاہم قومی اسمبلی کی نشست جیتنے کے باوجود میاں محمد نواز شریف نے اپنے چھوٹے بھائی کو پارٹی کی جانب سے وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا کیونکہ وہ مخلوط حکومت کی قیادت نہیں کرنا چاہتے تھے۔
8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں کسی بھی جماعت کو مرکز میں حکومت بنانے کے لیے دو تہائی اکثریت نہیں مل سکی جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم-پاکستان) اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
سب سے طویل عرصے تک وزیر اعلیٰ
نو منتخب وزیر اعظم شہباز شریف کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ صوبہ پنجاب کے سب سے طویل عرصے تک وزیراعلیٰ رہے ہیں، انہوں نے تقریباً 4 دہائی قبل اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کرنے کے بعد سے اب تک 3 بار اس عہدے پر کام کیا ہے۔
شہباز شریف لاہور کے گورنمنٹ کالج سے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ پہلی بار 1985 میں اس وقت سرخیوں میں آئے جب انہیں لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا صدر مقرر کیا گیا۔
سیاست میں ان کا آغاز 1988 میں ہوا جب وہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انہوں نے 1990 میں اسمبلی تحلیل ہونے تک مختصر مدت کے لیے خدمات انجام دیں۔
اسی سال انہوں نے قومی اسمبلی کے حلقے سے انتخاب لڑا اور کامیابی حاصل کی اور پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے رکن بن گئے۔ 1993 میں وہ دوبارہ پنجاب اسمبلی میں واپس آئے اور 1996 تک قائد حزب اختلاف کے عہدے پر براجمان رہے۔
پھر 1997 میں شہباز شریف نے تیسری بار پنجاب اسمبلی کے حلقے سے کامیابی حاصل کی اور پہلی مرتبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔
تاہم جنرل پرویز مشرف (مرحوم ) نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد شہباز شریف کو جیل بھیج دیا اور بعد ازاں انہیں 8 سال کے لیے جلاوطن کر دیا گیا۔
2008 ء میں شہباز شریف ایک بار پھر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور دوسری مدت کے لیے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اس بار انہوں نے اپنی مدت پوری کی۔
2013 کے عام انتخابات کے بعد شہباز شریف ایک بار پھر صوبہ پنجانب کے وزیر اعلیٰ منتخت ہو گئے۔ جبکہ 2018 کے انتخابات میں انہوں نے اپنی قومی اسمبلی کی نشست جیتی لیکن پاکستان تحریک انصاف کے حکومت بننے کے باعث وہ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے عہدے پر فائز رہے۔
اپریل 2022 میں شہباز شریف نے اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی ایم) کی جانب سے پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو برطرف کر کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک کے سیاسی اور معاشی حالات انتہائی ابتر تھے۔ لیکن درپیش بے شمار چیلنجز کو قبول کرتے ہوئے شہباز شریف نے ملک کی باگ ڈور سنھبال لی۔
شہباز شریف کی مختصر مدت کی کارکردگی
شہباز شریف نے 16 ماہ تک مختلف جماعتوں کے بننے والے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک آلائنس کو متحد رکھنے اور 2023 میں آئی ایم ایف کے ساتھ آخری معاہدے کو حاصل کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ پاکستان تقریباً ڈیفالٹ کے دھانے پر تھا۔
اپنے مختصر دور حکومت میں شہباز شریف کی سب سے بڑی کامیابی آئی ایم ایف سے یہی بیل آؤٹ پروگرام حاصل کرنا تھا جس سے پاکستان قرضوں کی عدم ادائیگی کے دہانے پر کھڑا تھا۔
تاہم ان کی حکومت میں روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی کے ساتھ افراط زر 38 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا جس کی بنیادی وجہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ضروری ڈھانچہ جاتی اصلاحات تھیں۔
شہباز شریف معاشی بحران کا الزام عمران خان کی حکومت پر عائد کرتے ہیں، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اقتدار سے ہٹائے جانے سے پہلے ہی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ توڑ دیا تھا۔
شہباز شریف کے لیے اہم چیلنجز
پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے اور افراط زر کی شرح 30 فیصد کے قریب ہے اور معاشی ترقی کی شرح 2 فیصد تک سست روی کا شکار ہے۔
شہباز شریف کو آئی ایم ایف سے قلیل مدتی بیل آؤٹ حاصل کرنے کے اپنے کارنامے کو دہرانے کی ضرورت ہوگی کیونکہ موجودہ پروگرام اگلے ماہ ختم ہو رہا ہے اور پاکستان کی معاشی بحالی کے لیے ایک نئے توسیعی معاہدے کی ضرورت ہو گی۔
قومی ایئر لائن سمیت کچھ بڑی سرکاری کمپنیوں کی نجکاری اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو محفوظ بنانا بھی معاشی بحران کو کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔
شریف خاندان کے عرب ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں جس سے پاکستان کی جانب سے حال ہی میں فروخت کے لیے پیش کیے جانے والے متعدد منصوبوں میں سرمایہ کاری کے حصول میں مدد مل سکتی ہے۔ موجودہ صورت حال میں ان دوست ممالک سے مدد حاصل کرنا شہباز شریف کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
شہباز شریف کو امریکا اور چین کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر کرنا ہو گا۔ انہیں پاکستان کے چار ہمسایہ ممالک بھارت، ایران اور افغانستان کے ساتھ بھی کشیدہ تعلقات سے نمٹنے کا مشکل ترین سفارتی چیلنج درپیش ہو گا۔
شہباز شریف نے اب 5 سال کی مدت کے لیے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی ہے اور ان کی قیاد ت میں ملک آنے والے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے جا رہا ہے۔
شہباز شریف کی قیادت کا نہ صرف ان کے اتحادیوں بلکہ حریفوں کی جانب سے بھی کڑا اور بے رحمی سے احتساب کیا جائے گا۔ پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنا، سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنا اور سفارتی سطح پر کامیابیاں حاصل کرنا شہباز شریف کے لیے بڑے چیلنج ہوں گے۔