گزشتہ 2 ہفتوں میں اگر میں 100 لوگوں سے ملا ہوں گا تو ان 100 کے 100 لوگوں نے مجھ سے ایک سوال ضرور پوچھا کہ کیا یہ نئی حکومت اپنی مدت پوری کر سکے گی؟
لوگ صرف مجھ ہی سے یہی سوال نہیں پوچھتے بلکہ پاکستان کے ہر فرد کے ذہن میں یہ سوال ضرور ہے کہ کیا یہ اتحادی حکومت اپنے 5 سال مکمل کر پائے گی؟ سچ پوچھیں تو نہ میرے پاس کوئی غیب کا علم ہے اور نہ میں نجومی یا علم العداد کا ماہر ہوں کہ زائچہ نکال کر مستقبل کو جانچ سکوں۔
ابھی تک ایسی کوئی ٹائم مشین بھی ایجاد نہیں ہوئی کہ جس طرح ہالی ووڈ کی فلموں میں کوئی 5 سال آگے جا کر دیکھ آتا ہے کہ آیا 2028 میں بھی وزیراعظم پاکستان شہباز شریف ہی ہوں گے یا حکومت کا سربراہ کوئی اور ہوگا۔
اس میں کوئی شک نہیں پاکستان کا ہر شہری مستقبل کے حوالے سے فکرمند ہے اور یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ اس نئی بننے والی حکومت کا کیا بنے گا؟
ان سوالوں کے جواب تو شاید شہباز شریف کو بھی معلوم نہیں ہوں گے کہ آیا وہ 5 سال کی مدت پوری کریں گے بھی کہ نہیں۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ آخر ہم یہ سوال کر ہی کیوں رہے ہیں؟
اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں بننے والی ہر حکومت کے بارے ہم یہی سوال ماضی میں بھی دہراتے رہے ہیں کہ آیا حکومت 5 سال کی مدت پوری کر پائے گی یا نہیں؟۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی منتخب وزیراعظم اپنی 5 سالہ مدت پوری نہیں کر پایا۔ 77 برسوں سے ہم ایک ہی رونا روتے آئے ہیں, اور ایک ہی امید پر یo سوال کرتے آئے ہیں کہ کیا منتخب حکومت اپنی مدت پوری کر پائے گی؟ نہ جانے کتنی اور آنے والی نسلیں یہی سوال دہرائیں گی۔
مزید پڑھیں
کبھی یہ سوال امریکا، یورپ یا کسی اور ترقی یافتہ ملک کے شہری کو آپ نے پوچھتے دیکھا ہے کہ امریکی صدر اپنی مدت پوری کرپائے گا یا نہیں؟ یہ سوال وہاں اس لیے نہیں پوچھے جاتے کیونکہ ان کا جمہوری نظام مضبوط اور ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرتے ہیں۔ وہاں کے شہری ووٹ ڈالنے کو اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ فرض شناسی اور قانون کا احترام راتوں رات نہیں آیا بلکہ ایک لمبی جدوجہد کے بعد آیا ہے۔ اس فرض شناسی میں سب سے اہم کردار تعلیم نے ادا کیا ہے۔ یہ تعلیم ہی ہے جس نے تمام ان ممالک کی ترقی اور جمہوریت کی مضبوطی میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔
بہر حال یہ بات اپنے طور پر قائم ہے کہ حکومت کی مدت پوری کرنے کے بارے میں سوال آخر لوگوں کے ذہنوں میں پیدا کیوں ہورہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ حالیہ انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلیوں کے الزامات نے ان الیکشنز کی شفافیت پر سوالیہ نشان اٹھائے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف یہ دعویٰ کررہی ہے کہ فارم 45 کے مطابق اس نے 180 نشستیں جیتی تھیں، لیکن دھاندلی کے ذریعے ان کی جماعت کی آدھی سیٹیں کم کردیں گئیں ہیں۔ جبکہ باقی سیاسی جماعتیں بھی دھاندلی کا رونا رو رہی ہیں۔
دوسری اہم وجہ جس نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا کیا کہ آیا حکومت اپنی مدت پوری کرے گی یا نہیں، وہ ہے کسی بھی سیاسی جماعت کو وفاق میں واضح اکثریت کا نہ ملنا۔ یہ بات تو روز روشن کیطرح عیاں ہے کہ مخلوط حکومت کبھی مضبوط نہیں ہوتی، اور اتحادیوں کی طرف سے اسے ہمیشہ بلیک میلنگ کا خوف رہتا ہے۔
اور بھی بے شمار ایسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ خدشہ ہمیشہ منڈلاتا رہے گا کہ آیا حکومت اپنی مدت پوری کرے گی کہ نہیں۔
میرے خیال میں اگر حکومت 3 بڑے چیلنجر سے نمٹنے میں کامیاب ہوگئی تو ان تمام تر سوالوں کے باوجود اپنی 5 سالہ مدت پوری کرسکتی ہے۔
پہلا چیلنج جو شہباز حکومت کو درپیش ہے وہ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات ہیں جو moral authority کا سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ اس سوالیہ نشان کو وہ کیسے ختم کرتے ہیں۔ یہ اخلاقی اتھارٹی شہباز شریف حکومت صرف اور صرف اچھی پرفارمنس دکھا کر قائم کرسکتی ہے۔ اس لیے انہیں اپنی کارکردگی بہتر کرنے پر توجہ مرکوز رکھنی ہوگی۔
دوسرا انہیں اپنی گورننس بہتر کرنی ہوگی۔ پی ڈی ایم کے 16 ماہ کے دور حکومت میں گورننس کوئی اتنی بہتر نہیں تھی۔ شہباز شریف حکومت کو اپنی گورننس بہتر کرنے اور معاشی استحکام لانے کے لیے آؤٹ آف دی باکس اقدامات کرنے ہوں گے۔
اداروں سے کیسے کام نکلوانا ہے اس پر بھی توجہ دینی ہوگی۔پرفارمنس، گورننس اور معیشت ان 3 شعبوں میں بہتری آئی تو حکومت اپنی مدت ضرور پوری کرے گی۔ کیونکہ اس وقت حالات نازک،stakes high ہیں اور تمام stakeholders فکر مند ہیں۔
اس کمزور مینڈیٹ اور ملکی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی بھی کوشش ہوگی کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے۔