موسمی تغیرات کے باعث بلوچستان خصوصاً مکران گزشتہ کئی دہائیوں سے طوفانی بارشوں کی تباہ کاریوں کی زد میں ہے، یہاں کے باشندوں کو ہرسال سینکڑوں جانوں اور بھاری مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تاہم اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے حکومتی سطح پر اب تک خاطرخواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔
امداد کے منتظر شہری
حکومت اور این جی اوز کے منتظر متاثرین سیلاب اپنی مدد آپ کےتحت بحالی کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ دنوں بلوچستان کے ضلع گوادر جسے سی پیک کا ماتھے کا جھومر اور مستقبل کا سنگاپور کہا جاتا ہے، وہاں طوفانی بارشوں کے باعث درجنوں مکانات ڈوب گئے ہیں۔
موسمی تغیرات کے باعث بارشیں بھی معمول سے ہٹ کر ہونے لگی ہیں۔انتظامی و حکومتی دعوؤں کے باوجود متعلقہ ادارے ان پر قابو پانے کے لیے اربن فلڈنگ کی پیشگی منصوبہ بندی نہیں کرتے، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی ہے۔ اس بار بھی پانی گھروں اور دکانوں میں داخل ہوگیا۔ 8کے قریب مکانات مکمل طور پر منہدم ہوگئے، جب کہ بڑی تعداد میں گھروں کو جزوی نقصان پہنچا۔ نتیجتاً شہری نقل مکانی پر مجبور ہوگئے اور رات کھلے آسمان تلے گزاری۔
موصلاتی نظام درہم برہم
طوفانی بارشوں کے سبب شہر میں بجلی، انٹرنیٹ اور دیگر موصلاتی نظام درہم برہم اور موبائل فون نیٹ ورک معطل ہوگیا، جب کہ شدید سمندری ہواؤں کی وجہ سے کھلے سمندر میں موجود کشتیاں بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔
اسوقت ساحلی شہر گوادر کی سڑکیں نہروں کامنظر پیش کر رہی ہیں۔ گوادر ایئرپورٹ پر 6 انچ پانی کھڑا ہےم جس کی وجہ سے پروازیں روک دی گئیں ہیں۔ بارش سےگرد و نواح کے اضلاع تربت میں بھی بہت تباہی ہوئی ہے۔
انتظامیہ برساتی پانی کی مکمل نکاسی میں ناکام
29 فروری کو شروع ہوانی والی بارش نے پورٹ سٹی کو مکمل طور ڈوب دیا، انتظامیہ برساتی پانی کی مکمل نکاسی میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
گوادر میں 16 گھنٹے کی مسلسل بارش نے تباہی پھیلانے دی ہے۔ مقامی رہنماؤں نے اسےآفت زدہ علاقہ قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ملکی و بین الاقوامی ادارے اس ضمن میں شہریوں کی مدد کے لیے پہنچیں۔ بارش سے پیدا ہونے والی تشویشناک صورت حال پر این ڈی ایم اے اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو ہنگامی اقدامات کرنے چاہییں۔
’ڈی واٹرنگ‘
اس بارے میں گودار کے ڈپٹی کمشنر نے اورنگزیب بادینی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ متاثرین کی بحالی اور شہر مین پانی کی نکاسی کے لیے ’ڈی واٹرنگ‘ کر رہے ہیں جب کہ شہر سے پانی کے مکمل انخلا میں میں وقت درکار ہے۔