وفاقی وزیر برائے تخفیف غربت اور سماجی تحفظ، شازیہ مری نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے کوئی لنگر خانہ بند نہیں کیا بس غریبوں کے نوالے گننے والے ڈرامے بند کردیے گئے ہیں۔
وی نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی دورِ حکومت میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) سے لاکھوں جائز مستحقیقن کو نکالا گیا اور ان کی بدعائیں لی گئیں اور پروگرام کی ساکھ کے ساتھ کھیلا گیا۔
‘یہ تاثر غلط ہے کہ شیلٹر ہومز اور لنگر خانے بند کردیے گئے ہیں’
اس سوال پر کہ سابق وزیرِاعظم عمران خان کے دور میں لنگر خانے اور شیلٹر ہومز قائم ہوئے تھے تو کیا موجودہ حکومت نے وہ بند کردیے ہیں؟ اس پر شازیہ مری کا کہنا تھا کہ ‘کسی غریب کی روٹی بند نہیں ہوئی، اب بھی ان جگہوں پر کھانا مل رہا ہے لیکن اب فرق یہ ہے کہ غریبوں کے منہ کے نوالے گنے نہیں جاتے اور اس حوالے سے ڈرامے کم ہوگئے ہیں جبکہ شیلٹر ہومز بھی اسی طرح بیت المال کی زیر سرپرستی قائم و دائم ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت میں لنگر خانوں اور شیلٹر ہومز کو کوئی اضافی حکومتی مدد نہیں فراہم کی گئی تھی بلکہ بیت المال سے خواتین کے لیے قائم فنڈ سے رقم نکال کر لنگر خانوں اور شیلٹر ہومز کو دی گئی تھی۔
بی آئی ایس پی میں نکالے گئے لوگ کیوں واپس آئے؟
ہم نے وفاقی وزیر شازیہ مری سے پوچھا کہ موجودہ حکومت نے گزشتہ دور میں بی آئی ایس پی سے نکالے گئے لاکھوں افراد کو واپس کیوں رکھا، تو وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مستحق افراد کے خلاف غلط پروپیگینڈا کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت نے بی آئی ایس پی سے 8 لاکھ 20 ہزار افراد نکال کر شور مچایا کہ یہ مستحقین نہیں تھے حالانکہ ان افراد کو اپیل کا حق بھی نہیں دیا گیا اور نہ ہی انہیں بتایا گیا۔
‘ہم نے اعتراض کرنے والے افراد سے رابطہ کیا تو بہت سارے ایسے مستحقین سامنے آئے جن کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی۔ ایک عورت کے 6 بچےتھے جن میں ایک معذور بھی تھا اور اس کا شوہر بھی اسے چھوڑ چکا تھا اور اسے کوئی مدد حاصل نہیں تھی۔’
شازیہ مری کا کہنا تھا کہ پچھلی حکومت نے نادرا کے اعلیٰ افسران کے ساتھ مل کر ایسے فلٹر بنائے کہ مستحق افراد بھی نکل گئے۔ جیسے اگر کسی کا بل ایک ہزار سے اوپر ہو، یا پھر اس نے ارجنٹ فیس دے کر شناختی کارڈ بنایا ہو یا ارجنٹ پاسپورٹ بنایا ہو یا بیرون ملک گیا ہو۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک فلٹر یہ بھی تھا کہ کسی کا موبائل بل ایک ہزار روہے سے زائد آیا ہو تو وہ مستحق نہیں ہے۔
‘اس بات کی تحقیق نہیں کی گئی کہ کئی خواتین کے نام پر اور لوگوں نے سمیں نکالی ہوتی ہیں یا کئی لوگ کسی کے صدقے پر عمرے پر گئے ہوتے ہیں جسیے لوگ اپنے گھریلو ملازموں کو عمرے وغیرہ پر بھیج دیتے ہیں۔ اسی طرح ایک عورت نے ارجنٹ شناختی کارڈ بی آئی ایس پی کی رقم لینے کے لیے بنوایا مگر وہ فلٹر کی وجہ سے مستحق افراد کی فہرست سے نکل گئی’۔
انہوں نے بتایا کہ اب حکومت نے مستحق افراد کے تعین کے لیے بنائے گئے غیر ضروری فلٹر ختم کردیے ہیں جیسا کہ ارجنٹ شناختی کارڈ یا موبائل بل کی بنیاد پر کسی کو فہرست سے نکالنا ختم کردیا گیا ہے۔
مستحق افراد کی فہرست میں سرکاری افسران کو کیوں شامل کیا گیا؟
انہوں نے واضح کیا کہ ‘اس پروگرام میں نہ فراڈ سے کبھی کسی کو شامل کیا گیا نہ کبھی کیا جائے گا اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔ یہ پروگرام سائنسی طریقے سے تشکیل دیا گیا ہے، اس طرح پروگرام کی ساکھ کے ساتھ کھیلا گیا ہے’۔
اس سوال پر کہ کیا سرکاری افسران کے نام بھی واپس فہرست میں شامل کیے گئے ہیں تو وفاقی وزیر نے بتایا کہ کئی غریب سرکاری ملازم فہرست میں اس لیے شامل ہوئے کہ سروے کے وقت نوکری کا نہیں اثاثوں کا پوچھا جاتا ہے۔ کئی ایسے افراد انکم سپورٹ کی شرائط پر پورا اترتے ہیں اور ان کی شمولیت کو غلط رنگ دیا گیا تاہم بڑے گریڈ کے افسران اگر شامل ہوئے تو وہ غلط تھا اور ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
تحفیف غربت پر حکومتی کاوشیں
ملک میں غربت کے خاتمے کے حوالے سے حکومتی کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے شازیہ مری نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بدترین سیلاب کے بعد بحالی کے لیے ہر متاثرہ گھرانے کو بی آئی ایس پی کے تحت 25 ہزار کی نقد رقم ادا کی ہے۔
‘ہمارے دورِ حکومت میں سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد بے گھر ہوئے جو کئی ممالک کی کُل آبادی سے زیادہ ہے جن میں 40 لاکھ بچے اور 6 لاکھ سے زائد حاملہ خواتین شامل تھیں۔ اس کے بعد وزیرِاعظم نواز شریف اور وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو کی کوششوں سے عالمی برادری متوجہ ہوئی اور اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی پاکستان کا دورہ کیا ہے اور ملک کے لیے امداد کا اعلان عالمی فورمز پر کیا گیا ہے
ان کا کہنا تھا کہ غربت پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ ہے اور پیپلز پارٹی کے ہی دور میں 2008ء میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا گیا تھا جس وقت دنیا عالمی کساد بازاری سے گزر رہی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ بی آئی ایس پی کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔
موجودہ حکومت کا کیا مستقبل ہے؟
اس سوال پر وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت گوناگوں مشکلات پر قابو پانے کی مسلسل کوشش کر رہی ہے اور اس میں شامل جماعتیں ماضی کے اختلافات بھلا کر ملک کے لیے اکٹھی ہوئی ہیں۔
‘وزیرِاعظم شہباز شریف خدمت کا جذبہ لے کر حکومت میں آئے ہیں۔ یہ ایسا وقت نہیں کہ وہ حکومت انجوائے کریں بلکہ اس وقت ان کو بہت ساری پریشانیوں نے گھیرا ہوا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ عام انتخابات آئین کے مطابق طے شدہ ٹائم لائن کے تحت ہی ہوں گے۔