رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہونے سے قبل ہی سوشل میڈیا پر پوسٹیں آنا شروع ہوجاتی ہیں جس کے مطابق مغرب میں اس مہینے کے آغاز سے پہلے ہی اشیائے خوردونوش کی قیمتیں کم ہوجاتی ہیں۔ البتہ ایک ہمارا سماج ہے جہاں ماہ صیام میں استعمال ہونے والی اشیاء بھی مہنگی ہو جاتی ہیں۔
آج صبح ہی ایک پوسٹ میری نظر سے گزری جس میں جرمنی کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہاں ابھی رحمتوں کا مہینہ شروع بھی نہیں ہوا مگر مسلمانوں کے استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔
یہ مشاہدہ ہمیں ہر سال ہوتا ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں، وہاں کے دکاندار اور تجارتی ادارے رمضان کی آمد پر خصوصی ڈسکاؤنٹس اور پروموشنز کا انعقاد کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں جہاں غیر مسلم ممالک کے تاجر رمضان کے آنے پر مسلمانوں کی سہولت کے لیے سامان کی قیمتیں کم کر دیتے ہیں، وہیں افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں اس مقدس مہینے کو کمائی کا ذریعہ بنا لیا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال ہم پشاور سے لے سکتے ہیں جہاں پر ابھی دودھ کی قیمتو ں میں خودساختہ اضافہ کرلیا گیا ہے۔ اب پشاور میں دودھ 220 روپے فی کلو جبکہ دہی 250 روپے فی کلو میں فروخت کیا جارہا ہے جبکہ کھجوروں اور چینی کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
تاجروں نے رمضان المبارک کی آمد کے باعث ذخیرہ اندوزی شروع کر دی ہے۔ رمضان المبارک میں بیسن کی مانگ میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کے باعث بیسن کی قیمتوں میں سوروپے فی کلو تک اضافے کے بعد اس کی قیمت 3 سو روپے فی کلو ہو گئی ہے۔ چینی 150 روپے فی کلو تک ہول سیل مارکیٹ میں پہنچ گئی ہے جبکہ پرچون میں 160 روپے فی کلو فروخت ہورہی ہے۔ ایرانی کھجور 400 روپے سے 800 روپے فی کلو جبکہ اچھی کوالٹی کی کھجور 1 ہزار روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔ کھجوروں کے بڑے بڑے تاجروں نے قیمتوں میں خود ساختہ طور پر اضافہ کر دیا ہے۔
رمضان المبارک، جو کہ مسلمانوں کے لئے روحانیت، عبادت، اور صبر کا مہینہ ہے، ہر سال اپنے ساتھ کئی اجتماعی اور انفرادی امتحانات بھی لاتا ہے۔ اس ماہ مقدس میں جہاں ایک طرف مسلمان خصوصی عبادات میں مصروف ہوتے ہیں وہیں دوسری طرف اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ روزہ داروں کے لیے مشکلات میں اضافہ کرتا ہے۔ جو کہ اسلامی اصولوں کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔
جب غیر مسلم ممالک کے تاجر مسلمانوں کے لئے آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں تو ہم مسلمان خود کیوں اپنے بھائیوں کے لئے مشکلات کھڑی کرتے ہیں؟ یہ رویہ اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ معاشرتی انصاف اور اخوت کے اصولوں کو بھی پامال کرتا ہے۔
اسلام میں تجارت اور کاروبار کو بہت اہمیت دی گئی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ انصاف، دیانتداری اور معقولیت کی تاکید بھی کی گئی ہے۔ اسلام ہمیں بھائی چارے کا درس دیتا ہے، خاص طور پر رمضان کے دوران جب ہر مسلمان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمائے۔ اگر ہم اپنے معاشرتی رویے میں تبدیلی لائیں اور اپنی تجارتی سرگرمیوں کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالیں تو ہم نہ صرف اپنے معاشرے کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ اپنے رب کی رضا بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
قیمتوں کو مصنوعی طور پر بڑھانے کے بجائے، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے معاشرے کے کمزور طبقات کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اس دوران اشیاء کی قیمتوں پر سختی سے نظر رکھے اور مصنوعی قلت سے بچنے کے لیے مناسب اقدامات کرے۔