اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران اسرائیل اور فلسطینی سفرا کے درمیان اسرائیلی وزیر کے یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے متنازع دورے کے معاملے پر سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔
مقامی اخبار میں شائع خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گیلاد اردان نے اجلاس کو افسوسناک اور مضحکہ خیز قرار دیا جبکہ فلسطینی سفیر نے اسرائیل پر توہین آمیز اقدام کا الزام عائد کیا۔
15 رکنی سلامتی کونسل نے متحدہ عرب امارات اور چین کی درخواست کے بعد نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں اس متنازع دورے پر تبادلۂ خیال کیا جس پر فلسطینیوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
اجلاس سے قبل اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مستقل نمائندے گیلاد اردان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ اجلاس منعقد کرنے کی سِرے سے کوئی وجہ نہیں تھی، کچھ ہوئے بغیر سلامتی کونسل کا اجلاس منعقد کرنا واقعی مضحکہ خیز ہے‘۔
واضح رہے کہ 3 جنوری کو اسرائیلی وزیر برائے قومی سلامتی اتامر بن گویر نے سخت سیکیورٹی میں مسجد اقصٰی کا دورہ کیا تھا، اس دورے کی اسرائیل کے دیرینہ اتحادی امریکا سمیت عالمی سطح پر متعدد ممالک نے شدید مذمت کی گئی تھی۔
خیال رہے کہ مسجد اقصیٰ اسرائیل کے زیر قبضہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے اور مذہب اسلام میں اسے تیسرا مقدس ترین مقام سمجھا جاتا ہے، یہ یہودیوں کے لیے سب سے مقدس ترین جگہ ہے جو اسے ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ کہتے ہیں۔
قاعدے کے مطابق مخصوص اوقات میں غیر مسلم اس جگہ کا دورہ کر سکتے ہیں لیکن انہیں وہاں عبادت کی اجازت نہیں ہے، خیال کیا جاتا ہے کہ کچھ اسرائیلی قوم پرست یہاں خفیہ طور پر ایسا کرتے ہیں جس پر فلسطینیوں کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کیا جاتا ہے۔
گیلاد اردان نے کہا کہ ’اتامربن گویر کا دورہ قاعدے کے مطابق تھا، جو کوئی بھی اس کے برعکس دعویٰ کررہا ہے وہ صرف صورتحال کو بھڑکا رہا ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ دعویٰ کرنا افسوسناک ہے کہ اس مختصر اور مکمل طور پر جائز دورے پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہونا چاہیے‘۔
مغربی حکومتوں نے خبردار کیا کہ اِس طرح کے اقدامات سے یروشلم کے مقدس مقامات پر امن و امان کی فضا برقرار رکھنے کے لیے کیے گئے انتظامات کو خطرہ ہے۔
اقوام متحدہ میں فلسطین کے سفیر ریاض منصور نے اجلاس میں اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ فلسطینیوں، سلامتی کونسل اور پوری بین الاقوامی برادری کے لیے انتہائی تحقیر آمیز رویے کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
ریاض منصور نے سلامتی کونسل کے ارکان سے اسرائیل کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’آخر وہ کون سی ریڈ لائن ہے جسے اسرائیل عبور کرے گا تو سلامتی کونسل کہے گی کہ بس بہت ہو گیا اور اس کے مطابق عمل کیا جائے؟‘۔
امریکی سفارتکار رابرٹ ووڈ نے اجلاس کو بتایا کہ ’امریکا تاریخی حیثیت سے ہٹ کر اٹھائے جانے والے تمام یکطرفہ اقدامات کی مخالفت کرتا ہے جوکہ ناقابل قبول ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مشرق وسطیٰ میں امن کی خاطر ہم اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ امن کی بحالی، مزید جانی نقصان کو روکنے اور دو ریاستی حل کے امکانات کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کریں‘۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے گذشتہ برسوں کے دوران اسرائیل اور فلسطین کے تنازع پر متعدد قراردادیں منظور کی ہیں اور مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے دو ریاستی حل کی حمایت کی ہے۔
دو گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس کے اختتام کے بعد اقوام متحدہ میں فلسطین کے سفیر ریاض منصور نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ ’قاعدے کا دفاع کرنے کے لیے سلامتی کونسل کا اتفاق رائے ہے‘۔
تاہم انہوں نے مزید کہا کہ انہیں اس حوالے سے اقوام متحدہ کی جانب سے مزید ٹھوس کارروائی کی توقع نہیں ہے۔