افغان طالبان پاکستان میں دہشت گردی کی براہِ راست مدد کر رہے ہیں، پاکستانی حکام

بدھ 6 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مختلف صحافیوں کی ایک انویسٹی گیٹو ویب سائٹ خراسان ڈائری کی ایک  رپورٹ کے دعوے کے مطابق اعلیٰ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ افغان طالبان پاکستان میں دہشت گردی کی براہِ راست مدد کر رہے ہیں۔

خراسان ڈائری کی رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور حافظ گل بہادر جیسے سابق حریف گروپوں کے درمیان اتحاد کے ظہور کے علاوہ نئے عسکریت پسند دھڑوں میں اضافہ ہوا ہے اور لشکر اسلام و ٹی ٹی پی پاکستان کے لیے سیکیورٹی چیلنجز پیدا کر رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کو درپیش مذکورہ مسائل میں افغان طالبان کا بھی ہاتھ ہے جس کے پاکستانی حکام کے پاس سینکڑوں شواہد موجود ہیں جن میں 218 عمری کور کے ذریعے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی افغانستان کے شمال میں آباد کاری اور بلوچستان اور خیبر پختونخوا صوبوں میں ٹی ٹی پی کو امداد فراہم کرنے والے مختلف سیل بھی شامل ہیں۔

ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق معاملات کا براہ راست علم رکھنے والے ایک پاکستانی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تبصرہ کیا کہ ’حالات اس طرح جاری نہیں رہ سکتے جس طرح اس وقت ہیں‘۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان افغانستان اور ایران کے درمیان خطرات کے اس مثلث میں کم از کم 11 نئے جہادی اداروں کے ابھرنے کے ساتھ تشدد کا سلسلہ بتدریج گمبھیر ہوتا جا رہا ہے۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے نقطہ نظر سے پاکستانی طالبان کے 2 اہم دھڑے ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر دھڑا بھی اپنی کارروائیوں کو ان گروہوں کو آؤٹ سورس کر رہے ہیں جو پہلے مکمل طور پر نامعلوم تھے۔ یہ نئے کور گروپس مقامی اور عالمی دونوں جہادی تنظیموں کے تمام آپریشنل نشانات رکھتے ہیں جس کا اندازہ اس طرح سے ہوتا ہے کہ وہ کلیدی فوجی اہداف کے خلاف حملوں کو ترتیب اور انہیں انجام دے رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ چیلنج خاص طور پر تشویشناک ہے کیونکہ پاکستان ان کو بڑی حد تک افغان طالبان خصوصاً حقانی نیٹ ورک سے منسوب کرتا ہے جبکہ پاکستانی حکام عسکریت پسندوں کی جانب سے تعینات کیے گئے نئے حربوں کے بارے میں جانتے ہیں۔

ویب سائٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عسکریت پسند گروپوں کی کارروائیوں کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے خراسان ڈائری نے ٹی ٹی پی کے کام کو 2 مرحلوں میں تقسیم کیا ہے۔ سنہ 2007 اور سنہ 2018 کے درمیان ٹی ٹی پی ابتدائی طور پر ایک روایتی قبائلی، جہادی ملیشیا سے مشابہت رکھتی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ، یہ ایک انتقامی گروپ میں تبدیل ہو گئی جو شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کے خلاف بلا امتیاز وسیع پیمانے پر حملے کرتا رہا۔

رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کا دوسرا مرحلہ اس وقت شروع ہوا جب اس کے موجودہ رہنما مفتی نور ولی محسود نے اس کے نئے امیر کے طور پر تنظیم کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس نے ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کے رہنما خطوط سے ہم آہنگ کرتے ہوئے شہریوں کو نشانہ بنانے سے دور ہو کر اسے نئی شکل دی۔ اس تبدیلی میں روایتی جہادی نظریے کو قوم پرستانہ رجحانات اور سماجی تحفظات کے ساتھ ملانا شامل تھا۔ اس گروپ نے اپنا نظریہ دوسروں پر مسلط کرنے سے بھی گریز کیا اور اپنے پروپیگنڈے کے مواد کو متنوع بنایا اور اسے ملک کے سیاسی اور سماجی واقعات سے زیادہ قریب رکھا۔

اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے پاکستانی حکومت کے لیے 2 الگ طریقے سامنے آئے۔ ایک پاکستانی طالبان کے دھڑوں کے خلاف افغانستان میں سرحد پار سے کارروائیاں اور دوسرا صورت حال کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ دریں اثنا پاکستانی طالبان اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اپنے ایجنڈے اور مفادات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ جبکہ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی بھی قسم کی ملی بھگت سے انکار کیا ہے۔ پشاور پولیس لائنز میں ہونے والے بم دھماکے تک پاکستانی فریق نے براہ راست افغان طالبان کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا تھا لیکن اس بات کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کی مدد کر رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp