سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کیس سے متعلق صدارتی ریفرنس میں اپنی متفقہ رائے میں کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا، سپریم کورٹ کی اس معاملے پر رائے متفقہ ہے۔
مزید پڑھیں
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل کرنے کے بعد سپریم کورٹ نے آج اپنی محفوظ رائے سے آگاہ کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے صدارتی ریفرنس پر 4 مارچ کو اپنی رائے محفوظ کی تھی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصورعلی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے اس ریفرنس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی متفقہ رائے سے آگاہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ریفرنس میں 5 سوالات اٹھائے گئے ہیں، کچھ کیسز ہیں جن میں یہ تاثر قائم ہوا کہ عدلیہ نے خوف میں فیصلہ کیا، ماضی کی غلطیاں تسلیم کیے بغیر درست سمت میں آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔
’بھٹو کا ٹرائل قانون کے مطابق نہیں تھا‘
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ سوال ہے کہ کیا فیئر ٹرائل ہوا تھا یا نہیں، ہم ججز پابند ہیں کہ قانون کے مطابق فیصلہ کریں۔ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کی متفقہ رائے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہم اس فیصلے کو ختم نہیں کر سکتے لیکن ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل آئین اور قانون کے مطابق نہیں تھا، بھٹو کیس کے ٹرائل میں فیئر ٹرائل کے بنیادی حق پر عمل نہیں کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے اپنی رائے میں کہا کہ فیصلہ عدالتی نظیر ہے یا نہیں، اس سوال میں قانونی اصول واضح نہیں کیا گیا، ایڈوائزری دائرہ اختیار میں بھٹو کیس میں شواہد کا دوبارہ جائزہ نہیں لے سکتے۔
سپریم کورٹ نے اپنی رائے میں مزید کہا کہ آئین، قانون ایسا میکنزم فراہم نہیں کرتا کہ فیصلہ اب کالعدم قرار دیا جائے، ذوالفقار بھٹو کیس میں نظر ثانی درخواست خارج اور فیصلہ حتمی ہوچکا، لاہور ہائیکورٹ میں ٹرائل اور سپریم کورٹ میں اپیل کارروائی بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھی۔
’تفصیلی رائے میں نقائص کی نشاندہی کریں گے‘
عدالت نے کہا کہ ایڈوائزری دائرہ اختیار میں شواہد دوبارہ دیکھ کر فیصلہ ختم نہیں کر سکتے، تفصیلی رائے میں بڑی خامیوں، قانونی نقائص کی نشاندہی کر دیں گے، اسلامی تناظر میں سزا کی حیثیت پر معاونت نہیں ملی، ذوالفقار بھٹو کیس پر اسلامی تناظر میں رائے دینا مناسب نہیں اور جس سوال پر معاونت نہیں ملی اس کا جواب نہیں دے سکتے۔
واضح رہے کہ محمد رضا خان قصوری قتل کیس میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے دوبارہ سماعت کا آغاز گزشتہ برس 12 دسمبر سے کیا تھا، جس کی اب تک 8 سماعتیں ہوچکی ہیں، صدارتی ریفرنس کی 12 سالوں میں مجموعی طور پر 14 سماعتیں ہوئی ہیں۔
ذوالفقار بھٹو کے خلاف کیس کیا تھا؟
مارچ 1978 میں لاہور کی عدالت نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پانچ سیکیورٹی اہلکاروں سمیت نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کی منصوبہ بندی کے الزام میں پھانسی کی سزاسنائی تھی، فروری 1979 میں سزائے موت کے خلاف اپیل سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے 4 تین کی نسبت سے مسترد کردی تھی۔
سپریم کورٹ کے 4 ججوں نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دینے کے حق میں جبکہ 3 ججوں نے پھانسی کے فیصلے کی مخالفت کی تھی، تاہم اس متنازع فیصلے کے 2 ماہ بعد اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے ذوالفقار بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دیدی گئی تھی۔
صدارتی ریفرنس کب دائر ہوا تھا؟
اپریل 2011 میں بحیثیت صدرِ پاکستان آصف زرداری نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کےخلاف ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا، جس میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے اعترافی بیان کو بنیاد بنایا گیا جس میں انہوں نے بھٹو کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ پر جنرل ضیاالحق کی حکومت کی جانب سے دباؤ کا ذکر کیا تھا۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر ابتدائی 5 سماعتیں جنوری سے نومبر 2012 کے دوران سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے جبکہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں آخری سماعت سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے کی تھی۔