سپریم کورٹ آف پاکستان نے آج ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس کا فیصلہ سنا دیا، جس کو سننے کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں سپریم کورٹ پہنچی، اور جونہی چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی قیادت میں سپریم کورٹ کا 9رکنی بینچ کمرہ عدالت نمبر 1 میں داخل ہوا، بلاول بھٹو زرداری فوراً سے روسٹرم پر پہنچ گئے اور فیصلہ سنتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔
سپریم کورٹ کا بینچ مقررہ وقت 11:30 سے زرا تاخیر سے پہنچا اور چیف جسٹس نے آتے ہی فیصلہ سنانا شروع کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے 2011 میں یہ ریفرنس بھیجا جس میں بنیادی طور پر 5 سوال پوچھے گئے تھے، کچھ سوالوں کے جواب ہم دے رہے ہیں، کچھ کے جوابات تفصیلی فیصلے میں دیں گے۔
مزید پڑھیں
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت اسلامی نقطہ نظر سے درست تھی یا غلط اس پر ہمیں معاونت نہیں ملی، اس لیے ہم اس پہلو پر جواب نہیں دیں گے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو نہ تو شفاف ٹرائل کا موقع ملا اور نہ ہی ان کی اپیل درست طریقے سے سنی گئی، تاہم چونکہ مذکورہ فیصلہ نظرثانی اپیل کے بعد حتمی ہو چکا تھا اس لیے اس کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
کیا عدالتی فیصلوں میں خوف اور رعایت کا عنصر غالب ہوتا ہے؟
اس پر بات کرتے ہوئے عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ہماری عدالتی تاریخ میں کچھ فیصلے ایسے ہیں جن کے بارے میں عوامی تاثر یہ ہے کہ ان میں خوف یا رعایت کے عنصر نے عدلیہ کو آئین اور قانون کے مطابق فیصلے دینے سے روکا۔
ہم اپنی ماضی کی غلطیاں تسلیم کرنے کو تیار ہیں
سپریم کورٹ نے کہا کہ ہمیں عاجزی کی ساتھ اپنی ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہیے، جو ہمارے اس عزم کا اظہار ہے کہ ہمیں ہر قیمت پر پوری ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ انصاف کرنا ہے۔
پوری قوم بھٹو کیس کی اصلیت جاننا چاہتی ہے
سپریم کورٹ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ ریفرنس ذوالفقار علی بھٹو کی قائم کردہ سیاسی جماعت کے دور حکومت میں دائر کیا گیا، لیکن ان کے بعد آنے والے دوسری سیاسی جماعتوں کی حکومتوں نے اس کو واپس نہیں لیا جو عوام کی اس مشترکہ خواہش کا اظہار ہے کہ وہ جاننا چاہتے ہیں آیا ذوالفقار علی بھٹو کو شفاف ٹرائل کے ذریعے سے سزا دی گئی یا نہیں۔
حیران کن طور پر متفقہ فیصلہ
ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس 2011 میں سابق صدر آصف علی زرداری نے دائر کیا اور اس دوران اس ریفرنس پر 6سماعتیں ہوئیں۔ لیکن جب چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے مقدمہ سماعت کے لیے مقرر کیا تو اس دوران کئی سوالات عدالت میں اٹھائے گئے، خاص طور پر جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے بارہا یہ سوال اٹھایا گیا کہ اگر ہم اس صدارتی ریفرنس پر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے فیصلے کو کالعدم کرتے ہیں تو اس طرح تو ماضی میں ہوئے تمام فیصلوں پر نظر ثانی کا دروازہ کھل جائے گا۔ اسی طرح سے چیف جسٹس بارہا مارشل لا ادوار میں ہونے والوں فیصلوں اور آئینی ترامیم کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے رہے۔
دوران سماعت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شاید یہ فیصلہ متفقہ نہ ہو، لیکن سپریم کورٹ کور کرنے والے رپورٹرز کے لیے بھی یہ حیران کن امر تھا کہ 9رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ جاری کیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی انتخابات سے پہلے فیصلہ چاہتی تھی
چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے پاس اس مقدمے کی پہلی سماعت 12 دسمبر کو ہوئی اور ابتدائی سماعتوں پر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مدعی مقدمہ احمد رضا قصوری نے وی نیوز کو خصوصی انٹرویو میں بتایا تھا کہ پھانسی کا فیصلہ درست تھا، اور عدالت کے سامنے انہوں نے کہا کہ اس مقدمے کو انتخابات کے بعد سنا جائے، کیونکہ پیپلزپارٹی اس مقدمے سے انتخابات میں فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔
پیپلز پارٹی قیادت کا موقف کیا رہا
ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کی سماعتوں پر آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، آصفہ بھٹو، ندیم افضل چن، مراد علی شاہ، قائم علی شاہ، قمر زمان کائرہ، شیری رحمان، نیئر بخاری، فرحت اللہ بابر، فیصل کریم کنڈی متواتر آتے رہے جبکہ فاروق ایچ نائیک بلاول بھٹو کے وکیل کے طور پر جبکہ رضا ربانی بطور عدالتی معاون پیش ہوتے رہے۔
ان سب افراد سے وقتاً فوقتاً جو بات چیت ہوئی اس کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ ہم تاریخ کی درستی چاہتے ہیں۔ آج فاروق ایچ نائیک نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بالکل درست فیصلہ ہے اور ایڈوائزری جوریسڈکشن میں یہی فیصلہ آنا چاہیے تھا۔ انہوں نے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا۔