رمضان میں اب گنے چنے چند دن ہی باقی رہ چکے ہیں لیکن پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں کوئی واضح کمی نظر نہیں آئی۔ پہلے کہا جا رہا تھا کہ نیا سال معاشی اعتبار سے عوام کے لیے اتنا سخت نہیں ہوگا مگر مہنگائی کی شرح اب تک برقرار ہے۔
مزید پڑھیں
معاشی ماہرین کا بھی یہی کہنا ہے کہ ملک میں سنہ 2024 میں بھی مہنگائی کی شرح برقرار رہنے کے قوی امکانات ہیں اور اگر کمی ہوئی بھی تو وہ معمولی ہی ہوگی۔
آلو، انڈے،گوشت، پیاز اور گیس سمیت کئیں چیزوں کی قیمتوں میں رواں ہفتے بھی اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے رمضان کا بجٹ بنانا خواتین کے لیے نہ صرف بیحد مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہی ہے۔
اس حوالے سے وی نیوز نے گھر کا کچن چلانے والی چند خواتین سے گفتگو کرکے ان کی رائے معلوم کی۔
’پہلے روز بننے والی فروٹ چاٹ اب کے رمضان شاید ہفتے میں ایک دن ہی بنے‘
اسلام آباد کی رہائشی اسماء شوکت کا کہنا تھا کہ مہنگائی کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے اور آلو و پیاز 2 ایسی چیزیں ہیں جن کی خصوصاً رمضان میں بڑی ضرورت پیش آتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ پھل اتنے زیادہ مہنگے ہو چکے ہیں کہ استطاعت سے ہی باہر ہیں۔
اسماء کہتی ہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے اس مرتبہ لگ رہا ہے کہ بہت ہاتھ روک کر رمضان گزارنا پڑے گا اور اسی لیے فی الحال سوچا یہی ہے کہ جہاں پورا رمضان روزانہ ہی فروٹ چاٹ بنتی تھی اس بار 5 سے 7 دنوں کا وقفہ دے کر ہی بنائی جائے کیونکہ اس سے زیادہ کی اب استطاعت بھی نہیں رہی۔
’کم لاگت والی ڈشز بنانی ہوں گی تاکہ بچے محسوس نہ کریں‘
انہوں نے کہا کہ جہاں کجھور اچھی کوالٹی کی لیتے تھے وہاں اب تھوڑی سستی والی سے کام چلانا پڑے گا اور باقی بچوں کی خوشی کے لیے کچھ نئی اور کم پیسوں میں بن کر تیار ہو جانے والی ڈشز بنانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ بچے اس بات کو محسوس نہ کریں کہ دسترخوان پر چیزیں کم ہو گئی ہیں۔
’گزشتہ سال پھل چھوڑے اس مرتبہ پکوڑے اور چنا چاٹ بھی نہیں بناسکیں گے‘
سمیرا مجید کا تعلق راولپنڈی سے ہے جنہوں نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ رمضان پھل کھانے چھوڑ دیے تھے مگر اس بار غالب امکان ہے کہ پکوڑوں اور چنا چاٹ کا سلسلہ بھی بند ہوجائے گا یا پھر فروٹ چاٹ کی طرح پکوڑے اور آلو یا پیاز سے بننے والے آئٹمز بھی دسترخوان پر کم یاب ہی ہو جائیں گی۔
’بچوں کی فرمائش پوری نہ کی جاسکے تو تکلیف ہوتی ہے لیکن حکمران کیا جانیں‘
انہوں نے کہا کہ ’مسئلہ بڑوں کا نہیں بلکہ بچوں کا ہوتا ہے کیونکہ رمضان کی ایک رونق یہ بھی ہے کہ دسترخوان سجا رہے لیکن مہنگائی کے ساتھ ساتھ دسترخوان کی رونقیں بھی ماند پڑتی جا رہی ہیں اور جب بچے ڈیمانڈ کرتے ہیں اور انہیں نہ دیں سکیں تو تکلیف ہوتی ہے‘۔
سمیرا نے قدرے تاسف بھرے لہجے میں کہا کہ ’ والدین کی یہ تکلیف شاید حکمران نہ سمجھ سکیں کیونکہ ان کی اولادیں تو سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتی ہیں‘۔
’بجٹ تو بڑے لوگ بناتے ہیں‘
اقصیٰ شاہد 3 بچوں کی ماں ہیں اور ان کا تعلق چکری راولپنڈی سے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے شوہر پیٹرول پمپ پر کام کرتے ہیں اور ان کی ماہانہ آمدنی 40 ہزار روپے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان جیسے لوگ کیا بجٹ بنائیں گے اس لیے کہ بجٹ تو وہ بناتے ہیں جنہیں زیادہ سودا سلف خریدنا ہوتا ہے اور اب یہ کام تو پیسے والے ہی کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’پہلے ہم بھی اکٹھا سودا لے آیا کرتے تھے اور اس وقت ضرورت کی کچھ اشیا 10 ہزار روپے میں آ جایا کرتی تھیں لیکن اب انہی چند چیزوں کی قیمتیں اتنی زیادہ بڑھ چکی ہیں کہ ہم رمضان میں اگر صرف سالن روٹی کا ہی اہتمام کر لیں تو ہمارے لیے یہ بھی بہت ہوگا‘۔
اقصیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے دسترخوان پر پہلے پکوڑے ہوا کرتے تھے مگر اب وہ بھی نظر نہیں آئیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گوشت تو پہلے ہی بہت مہنگا تھا اور غریب افراد کھا ہی نہیں سکتے تھے لیکن اب تو ہم جیسوں کو دالیں بھی سوچ سمجھ کر ہی لینی پڑتی ہیں کیونکہ ان کی قیمتوں کو بھی پر لگ چکے ہیں۔