ماہرین آثار قدیمہ نے یورپ میں اب تک کی سب سے بڑی اجتماعی قبر دریافت کی ہے جس میں انہیں ایک ہزار سے زائد انسانوں کے ڈھانچے ملے ہیں۔
مزید پڑھیں
میڈیا رپورٹس کے مطابق، ماہرین آثار قدیمہ نے یہ اجتماعی قبر جرمنی کے شہر نیورمبرگ میں دریافت کی ہے اور خیال کیا جا رہا ہے اس میں موجود ڈھانچے ان لوگوں کے ہیں جن کی اموات طاعون کی وجہ سے ہوئی تھیں۔
نیورمبرگ شہر میں نئی رہائشی عمارتوں کی تعمیر سے قبل آثار قدیمہ کے سروے کے دوران 8 گڑھوں کی نشاندہی ہوئی، جن میں سے ہر ایک میں سینکڑوں ڈھانچے موجود تھے۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس اجتماعی قبر میں ممکنہ طور پر 1500 انسانوں کی باقیات بھی ہوسکتی ہیں۔
جرمنی کے ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو باقاعدہ طور پر قبرستان میں دفن نہیں کیا گیا تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیورمبرگ میں طاعون یا اس جیسی کوئی وبا پھیلی تھی جو ان لوگوں کی اموات کا باعث بنی تھی اور انہیں جلدی میں ایک ہی قبر میں دفن کر دیا گیا تھا۔
ماہرین نے کہا ہے کہ نیورمبرگ میں 14ہویں صدی سے ہر 10 سال بعد کوئی نہ کوئی وبا پھیلتی تھی، اسی لیے ابھی یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ان لوگوں کو کب اس اجتماعی قبر میں دفن کیا گیا۔
تاہم ماہرین آثار قدیمہ نے ریڈیو کاربن ڈیٹنگ سے اندازہ لگایا ہے کہ ان گڑھوں میں سے ایک کا تعلق 15ہویں اور دوسرے کا تعلق 17ہویں صدی سے ہے۔ ماہرین نے اس مقام سے ملنے والے ایک برتن اور دستاویز سے یہ اندازہ بھی لگایا ہے کہ یہ اجتماعی قبر 1632ء سے 1633ء کے درمیان پھیلنے والی وبا کے بعد بنائی گئی۔
نیورمبرگ کے محکمہ آثار قدیمہ کی ماہر میلانے لینگ بین نے کہا ہے کہ 1632ء سے 1633ء کے درمیان پھیلنے والی وبا اس سے پہلے پھیلنے والی وباؤں سے زیادہ خطرناک تھی جس کی سب سے بڑی وجہ یورپی اقوام کے درمیان 30 سال سے جاری جنگ تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ اس عرصہ کے دوران نیورمبرگ میں مختلف افواج کا بسیرا رہا اور وہاں کے لوگ انتہائی مخدوش حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور رہے، یہ اس جنگ کے اثرات تھے جن کے باعث اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی اموات ہوئیں۔
اجتماعی قبر کے مقام پر کھدائی کرنے والی کمپنی کے مالک جولین ڈیکر نے کہا ہے کہ انہوں نے کھدائی کے دوران یہ قبر غیر متوقع طور پر دریافت کی ہے اور اس میں ممکنہ طور پر 2 ہزار سے زیادہ افراد کی باقیات بھی ہوسکتی ہیں۔