معاصر شعرا کے اشعار پر مبنی پینٹنگز کی منفرد نمائش

ہفتہ 9 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کٹاس راج آرٹ گیلری کے زیر اہتمام اکادمی ادبیات پاکستان کے تعاون سے 20 معاصر شعرا کے اشعار پر مبنی پیٹنگز کی نمائش کا اہتمام کانفرنس ہال، اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد میں کیا گیا۔ نمائش کا افتتاح ملک کے ممتاز شاعر افتخار عارف نے کیا۔

’شام آ رہی ہے ڈوبتا سورج بتائے گا …… تم اور کتنی دیر ہو، ہم اور کتنی دیر‘ ۔ (افتخار عارف اور نعمان فاروق پینٹنگز دیکھتے ہوئے)

نمائش میں وصی حیدر، ایم ایچ سلہری، محمود علی، آصف اقبال، استاد جیکب، ظفر اقبال، گل بھائی اور آمنہ بتول کی پینٹنگز شامل کی گئی ہیں۔

(’اس نے تو اک نگاہ ڈالی تھی …… آج تک آئینہ چمکتا ہے‘ :ریاض عادل) ۔ (’لمحہ میری گرفت میں آیا نکل گیا …… جیسے کسی نے ہاتھ ملایا نکل گیا‘ : امداد آکاش)

جن 20 معاصر شعرا کے اشعار کا انتخاب کیا گیا ہے ان میں افتخار عارف، سلیم کوثر، یاسمین حمید، احمد حسین مجاہد، امداد آکاش، حمیدہ شاہین، رحمان حفیظ، خورشید ربانی، عابد سیال، شمشیر حیدر، شازیہ اکبر، احسان شاہ، ڈاکٹر ریاض عادل، سجاد بلوچ، طیب رضا، عمران عامی، ندیم بھابھہ، نوید حیدر ہاشمی، احمد عطااللہ عطا اور شکیل جاذب کے نام شامل ہیں۔

’آنکھیں دیوار ہو گئیں جن کی …… ان کو تصویر بھیج دو اپنی‘۔ شعر: شازیہ اکبر

مہمان خصوصی افتخار عارف نے کہا کہ فنون لطیفہ میں فن مصوری قدیم ترین فن کے طور پر جانی جاتی ہے اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اولین شاعری کی ترجمانی مصوری کی شکل میں پتھروں پر محفوظ کی گئی تھی۔

’زندگانی بھی عجب کوچہ ظلمت ہے جہاں …… برق گرتی ہے تو رستے کا پتا چلتا ہے‘ ۔ رحمان حفیظ اپنے شعر کی پینٹنگ کے ہمراہ

ان کا کہنا تھا کہ تہذیبوں کے آثار اس کے گواہ ہیں۔ جنوبی ایشیا میں بھی پچھلی صدی میں اس کی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔ اُردو شاعری تصویروں کی صورت میں اپنی بے مثال روایت رکھتی ہے۔

’میں جانتا ہوں، کہاں تک اُڑان ہے اِن کی …… یہ میرے ہاتھ سے نکلے ہوئے پرندے ہیں‘ ۔ عمران عامی اپنے شعر کی پینٹنگ کے ہمراہ

افتخار عارف کا کہنا تھا کہ عبدالرحمان چغتائی نے غالب اور اقبال کی ترجمانی کی جب کہ صادقین نے غالب اور فیض کو تصویروں میں منعکس کیا اور جدید مصوروں میں اسلم کمال نے اقبال، فیض اور دوسرے شاعروں کو تصویروں کی شکل دی۔

انہوں نے مزید کہا کہ نعمان فاروق ہمارے اہل قلم میں صاحبِ دل، صاحب نظر اور صاحبِ شخصیت نوجوان گردانے جاتے ہیں۔ کٹاس راج آرٹ گیلری کے عنوان سے انہوں نے ایک اچھے ادارے کی بنیاد رکھی ہے۔

’پھر ایک دن وہ اس سے ہم آغوش ہو گئی …… دریا کو دیکھتی تھی کناروں سے روشنی‘ ۔ شاعر : خورشید ربانی

کٹاس راج کا تاریخی مقام دنیا بھر میں آثار قدیم کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ اسی تاریخی مقام پر گیلری کا قیام ایک بڑا کارنامہ ہے، جس کی ستائش کی جانی چاہیے۔

ڈاکٹر نجیبہ عارف صدر نشین، اکادمی ادبیات پاکستان نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان کی ترجیحات میں یہ امر خصوصی طور پر شامل ہے کہ ادب کے دوسرے فنون لطیفہ سے اشتراک اور مطابقت پر زور دیا جائے۔

’ہمیں خبر تھی بچانے کا اس میں یارا نہیں …… سو ہم بھی ڈوب گئے اور اسے پکارا نہیں‘ ۔ (شعر: یاسمن حمید)

انہوں نے کہا کہ مختلف فنون لطیفہ کو ایک پلیٹ فارم کے تحت جمع کرنے سے معاشرے کی ہم آہنگی کے لیے وسیع موقع فراہم کیے جا سکتے ہیں۔

(’یا تو مٹی ہی بھربھری ہے مری …… یا کوئی دکھ ہے واقعی مجھ کو‘ : احمد حسین مجاہد) ۔ (’اگر میں سورج کے ساتھ ڈھلنے سے بچ گیا تو …… کہاں گزاروں گا شام سوچا ہوا ہے میں‘ : سلیم کوثر)

کٹاس راج آرٹ گیلری کے روحِ رواں نعمان فاروق نے کہا کہ میرے نزدیک فنون لطیفہ کی تمام شاخیں ایک ہی سر چشمے سے پھوٹتی ہیں۔ میں نے ان میں سے دو شاخوں شاعری اور مصوری کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگلے مرحلے میں ادب کی دیگر اصناف کے حوالے سے بھی اسی نوع کی نمائشیں کرنے کا ارادہ ہے۔

نمائش میں جڑواں شہروں کے ادیبوں، شاعروں اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھر پور شرکت کی، خواتین و حضرات نے اس منفرد کاوش کو بے حد سراہا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp