نئی حکومت کی خالی پلیٹ

اتوار 10 مارچ 2024
author image

احمد ولید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ملک کے سیاسی تھیٹر پر ایک بار پھر تاریخی عدم اعتماد کی تحریک کے بعد بننے والی حکومت کے تسلسل کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ اقتدار مل گیا۔ مقبولیت تبھی ملے گی جب عوام کو ریلیف ملے گاجس کی امید دور دور تک نہیں۔

نئی حکومت کے لیے پہلا سال انتہائی مشکل ہو گا اور اگلے 4 سال میں ڈولتی معیشت کو سنبھالا دینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ سیاسی محاذ پر تحریک انصاف قدرے مضبوط نظر آرہی ہے جس نے تہیہ کررکھا ہے کہ وہ اپنا ’ چھینا ‘ گیا مینڈیٹ واپس لیے بغیر اتحادی حکومت کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے  اور یہی ہدایات جیل میں بیٹھے پارٹی کے بانی اور  سپریم لیڈر عمران خان کی بھی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے لیے میدان کھلا ہے کہ وہ نئی نویلی حکومت کو آڑے ہاتھوں لے۔ ان کے  لیےحالات نہایت موزوں ہیں کہ وہ ڈھول پیٹیں کہ مینڈیٹ چھینا گیا اور جنہوں نے اپنے ڈیڑھ سالہ دور میں عوام کے لیے مہنگائی کا ایک پہاڑ کھڑا کیا اب وہی چہرے عوام کو قبر میں ڈالنے کے لیے دوبارہ کرسی سنبھال رہے ہیں۔

کیونکہ حکومت کی پلیٹ خالی ہے جو عوام کو تنگدستی کے سوا کچھ دینے کے قابل نظر نہیں آتی، معجزہ ہو جائے توکچھ کہا نہیں جاسکتا۔

اس الیکشن کے بعد تحریک انصاف پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف اتحاد کا ہاتھ بڑھا رہی تھی مگر کچھ دیر ہوگئی اور آصف علی زرداری نے مناسب سمجھا یا انہیں سمجھایا گیا کہ مسلم لیگ نواز کی طرف جانے میں ہی سب کی بھلائی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے زیادہ تر رہنما اور سپورٹرز پیپلز پارٹی سے مل کر حکومت بنانے کے حق میں نظر آرہے تھے کیونکہ پنجاب میں مسلم لیگ نواز کی مخالفت کرنا ہی ان کے فائدے میں رہے گا۔

عمران خان اور ان کی جماعت کے تابرتوڑ حملوں کے نشانہ پر رہنے والے مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی اچانک ان کے نور نظر بن گئے اور ’ غداری ‘ اور ملک دشمنی کے اعزاز حاصل کرنے والے محمود خان اچکزئی کو تو اپنا صدارتی امیدوار بنا دیا۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کو شاید احساس ہو گیا ہے اور اب وہ غلطیاں دھرانے سے بچیں گے۔ مگر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ماسوائے اس کے کہ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں کی طرف جھکاؤ میں ہی بہتری ہے اور سیاست میں دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست بنانا سب جائز ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نوزائیدہ حکومت کی طرف سے پیش کردہ میثاق معیشت اور میثاق مفاہمت کی پیش کش پر کسی صورت متفق ہوتی نظر نہیں آتی۔ جس کا مطلب ہے کہ سیاسی استحکام کے لیے کی جانے والی ہر حکومتی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے ہر قدم اٹھائے گی۔

اس سے سیاسی تقسیم بھی کم ہونے کی بجائے بڑھتی جائے گی۔ سیاسی تناؤ، معاشی بدحالی، سیکیورٹی کی خراب صورت حال، بیروزگاری اور ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے جیسے چیلنج اس حکومت کے ناممکنات میں شامل ہیں۔

صوبوں میں حکومت کی خواہش تمام جماعتوں کی ہے مگر وفاق میں مسلم لیگ نواز کی حکومت کے ساتھ شراکت پر ہر پارٹی گریزاں ہے۔

پیپلز پارٹی کابینہ میں تو شامل نہیں ہوئی مگر بیشتر آئینی عہدوں پر براجمان ہونے کے لیے جھٹ سے تیار ہوگئی۔ پی ڈی ایم کے دور کی طرح اس مرتبہ بھی وہ چاہتے ہیں کہ مشکل ترین وقت میں کٹھن ترین فیصلوں کا بوجھ شہباز شریف اٹھائیں۔

اس دور حکومت کے بعد مسلم لیگ نواز کی مقبولیت میں اضافہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ اپنی 5 سالہ مدت میں کوئی بڑا چمتکار کرکے سب کو حیرت میں ڈال دے۔ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ مریم نواز اور ان کے چچا وزیراعظم شہباز شریف کے وعدے اور عزائم تو بہت اونچے ہیں مگر یہ سب کیسے ممکن ہو گا سب ماہرین کی سوچ سے باہر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp