کراچی سے تعلق رکھنے والے عنایت علی اور فیوض علی 73 سالہ جڑواں بھائی ہیں جو 1968 سے مقامی و بین الاقوامی ڈاک ٹکٹ جمع کرتے اور بیچتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کاروبار سے جڑے رہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ان کے والد کا شوق تھا۔
’والد کو ٹکٹیں ملتی نہیں تھیں تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہاں بیٹھ کر ٹکٹ خریدنا شروع کرتے ہیں۔ جو میرے کام کی ہوگی وہ میں رکھ لوں گا باقی بیچنا شروع کردیں گے، شوق سے شروع ہونے والا یہ کام کاروبار بن گیا‘۔
جڑواں بھائیوں کے پاس پاکستان کا وہ ڈاک ٹکٹ بھی موجود ہے جو 1947 میں جاری ہوا لیکن وہ ٹکٹ بنیادی طور پر پاکستان کا نہیں بلکہ بھارت کا تھا جس پر پاکستان لکھ دیا گیا تھا۔ کیونکہ پاکستان کا اپنا ڈاک ٹکٹ بہت بعد میں جاری ہوا تھا۔ عنایت علی کے مطابق ان کے پاس لاکھوں ٹکٹس موجود ہیں اور سب سے پہلا ٹکٹ اس وقت 25 ہزار روپے کا فروخت ہو رہا ہے۔