الیکشن کی ڈگڈگی اور بچہ جمورا

بدھ 13 مارچ 2024
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

شہباز شریف نے وزارت عظمٰی کا حلف اٹھایا، آصف زرداری نے صدر پاکستان کا منصب سنبھالا، مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر متمکن ہو گئیں۔ سرفراز بگٹی کے حصے میں بلوچستان آیا، مراد علی شاہ سندھ لے اڑے، علی امین گنڈا پور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ گزشتہ چند ماہ سے ملک بھر میں جاری رہنے والا جمہوری تماشا بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا۔

 الیکشن ہوا، عوام نے ووٹ ڈالے اور ایک نئے سفر کا آغاز ہوا۔ اک ایسا سفر جس میں اب عوام کی نہ کوئی مرضی ہے نہ منشا، نہ داد ہے نہ فریاد۔ اب شیروانیاں ہیں اور مبارک سلامت کا شور ہے۔ اس ہنگام میں بہت سے ایسے گھرانے ہیں جہاں بجلی کا بل ایٹم بم کی طرح گرا ہے، جہاں گیس کے نرخ کلیجہ چیر گئے ہیں، جہاں روٹی کی قیمت کا مطلب اب صرف بھوک ہی ہے۔

جمہوریت بہت اچھی چیز ہے۔ اس پر اعتماد بہت ضروری ہے۔ ہر مقام پر اس کا دفاع فرض اولین ہے۔ لیکن اس کے مقصد کو بھول جانا کوئی دانش مندی نہیں۔ جمہوریت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی جماعت کے من پسند افراد شیروانیاں پہن لیں۔ جمہوریت کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ عوام پانچ سال بعد صندوقچی میں ووٹ ڈال دیں، جمہوریت کا مطلب یہ بھی نہیں کہ عوام اپنے قائدین کے کہنے پر توڑ پھوڑ کریں، جمہوریت کا یہ مطلب بھی نہیں کہ لوگ کسی سے نفرت کریں، کسی کی خاطر تالیاں بجائیں، کسی کے سامنے گھنگرو پہنیں، کسی کا دل لبھائیں۔ یہ جمہوری شعار نہیں۔

جمہوریت ایک دو دھاری تلوار ہے جس میں عوام کا کام صرف ووٹ ڈالنا ہی نہیں ہوتا، صرف بڑی بڑی گاڑیوں کے آگے بھنگڑے ڈالنا نہیں ہوتا۔ اس میں پوشیدہ کچھ ثمرات بھی ہوتے ہیں جو بدقسمتی سے ہمارے عوام کی نظروں سے ہمیشہ مخفی رہے ہیں۔

اچھی بات ہے کہ آپ کی من پسند حکومت آ گئی ہے لیکن اب سوال آپ کو پوچھنا ہے کہ ان من پسند حکومتوں کے پاس عوام کے لیے کیا ہے؟ بھوک، افلاس کا علاج کیا ہے؟ ننگ اور مفلسی کا حل کیا ہے؟ بجلی کے بلوں کا، گیس کی قیمتوں کا اب کیا کرنا ہے؟ روٹی کی قیمت، آٹے کے تھیلے، دوائی، بچے کی فیس نہ ہونے کا اب الزام کس کے سر دھرنا ہے؟

پچھتر برس ہوگئے پاکستان کو۔ پچھتر برس میں انسان بوڑھا ہو چکا ہوتا ہے۔ ہم بحیثیت قوم ابھی بلوغت تک نہیں پہنچے۔ ابھی اپنے حقوق کے بارے میں نہیں جان سکے۔ ہم صرف نعرے لگانے کے لیے نہیں۔ ہم صرف کچلے جانے کے لیے نہیں۔ ہم صرف دھوکہ کھانے کے لیے نہیں۔

ہمارے نام پر ووٹ لیا ہے تو اب کام کر کے دکھائیں۔ ہماری فلاح کر کے دکھائیں۔ ہماری زندگیاں بہتر کر کے دکھائیں۔ شیروانیاں، جلسے، محلات آپ کو بہت مبارک ہوں۔ آپ کا اقبال مزید بلند ہو مگر یاد رکھیے یہ سب عنایات اس شخص کے نام پر ہیں جس کے گھر میں چولہا نہیں جلتا، جس کے بچے نے سکول کا چہرہ نہیں دیکھا، جس کو بیماری میں دوائی نصیب نہیں ہوتی، جس کے گھر کے باہر کی گلی کبھی پکی نہیں ہوتی۔ یہ سارا نظام تو اسی شخص کے نام سے، اسی شخص کے افلاس کے سبب  قائم ہے۔ اگر اب اس کی زندگی میں بہتری نہیں ہوتی تو وہ سوال کر سکتا ہے۔ یہ جمہوریت ہے۔ یہ جمہوری حق ہے۔ یہی حکومتوں کا منشا ہونا چاہیے۔

چند سیاسی لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ ہر ایک کے پاس اپنی داستان تھی۔ الیکشن میں دھاندلی کی بات اب پرانی ہو گئی۔ اب اس کی چٹ پٹی کہانیاں دستیاب ہیں۔ کون کیسے وزیر بنا، کس کو کہاں سے اچانک غیبی امداد آئی، کس کو مشیر بنانے کا اشارہ کس نے دیا۔ کس کی شیروانی دھری کی دھری رہ گئی۔ کس نے مخصوص نشستوں پر اپنے پینل کو آگے بڑھا دیا۔ کس نے بڑے گھر سے سفارش کروائی۔ کس نے کس سیاستدان کے گھر کے باہر ڈیرے ڈالے تو وزارت ملی۔

یوں لگتا تھا سبزی منڈی کے بیوپاریوں سے بات ہو رہی ہو۔ چھینا جھپٹی کی داستان سنائی جا رہی ہو۔ یوں لگتا تھا منڈی کے بھاؤ بتائے جا رہے ہیں۔ یا پھر محلاتی سازشوں کی شبینہ داستانیں سنائی جا رہی ہیں۔ نشست دیر تک جاری رہی۔ دیر تک وزارتوں کے حصول کے راز منکشف ہوتے رہے۔ دیر تک اس تگ و دو کا ذکر ہوتا رہا جس کے نتیجے میں شیروانی زیب تن کرنے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے۔

المیہ یہ نہیں کہ یہ گفتگو انتہائی رکیک سے رکیک تر ہوتی گئی، المیہ تو یہ تھا کہ اس ساری گفتگو میں ایک دفعہ بھی اس عوام کا ذکر نہیں آیا جس کے نام پر ووٹ لیا گیا۔ جس سے نعرے لگوائے گئے، جس کو جلسوں میں نچایا گیا، جس کی غربت کی داستانوں سے دوسری جماعتوں پر کیچڑ اچھالا گیا۔ جس کے حسرتوں کے قصر پر تماشا کیا گیا وہ ساری گفتگو سے مفقود تھا۔ نہ اس کا کسی نے ذکر کیا نہ کسی کا دھیان اس کی مجبوریوں کی طرف گیا، نہ کسی نے اس پر گزرنے والے الم کی نشاندہی کی نہ کس نے اس کی بھوک کا ماتم کیا۔

 یوں لگتا تھا یہ قوم کوئی اور قوم ہے، یہ لوگ کوئی اور لوگ ہیں۔ شیروانیوں کی حرص میں لتھڑے ہوئے، طمع کی آگ میں جلتے ہوئے یہ لوگ کوئی اور لوگ ہیں ۔ ان کا اس ملک میں بسنے والے پچیس کروڑ لوگوں سے کوئی تعلق ہے نہ واسطہ۔

ان پچیس کروڑ لوگوں کے دکھ نہ ختم ہونے والے ہیں، ان کے مسئلے نہ کسی نے حل کیے ہیں نہ کسی کو اس کا ہوش ہے۔ ان خاک نشینوں کا بس اتنا ہی کام تھا کہ الیکشن کی ڈگڈگی پر بچہ جمورا بن کر، ایک اشارے پر صندقچی میں ووٹ ڈال دینا ۔ یہی اس ملک کے عوام کا اختیار ہے اور شاید یہی اس ملک کے عوام کا مقدر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp