لگتا ہے الیکشن ایکٹ بناتے وقت مخصوص نشستوں کا معاملہ زیر غور نہیں لایا گیا، پشاور ہائیکورٹ

بدھ 13 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سنی اتحاد کونسل کی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر سماعت کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کے جج جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے الیکشن ایکٹ 2017ء پاس کرتے وقت پارلیمنٹ مخصوص نشستوں کا معاملہ زیر غور نہیں لائی۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں پشاور ہائیکورٹ کے 5 رکنی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔

لارجر بینچ کے دیگر ججز میں جسٹس اعجاز انور، جسٹس عتیق شاہ، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس سید ارشد علی شامل ہیں۔ سنی اتحاد کونسل کی جانب سے قاضی انور اور اعظم سواتی جبکہ پیپلز پارٹی کے نیئر بخاری، فیصل کریم کنڈی اور فاروق ایچ نائیک بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

کیس کی گزشتہ سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور سنی اتحاد کونسل کے وکیل قاضی انور کی درخواست پر عدالت نے حکم امتناع میں  13 مارچ تک توسیع کی تھی اور اٹارنی جنرل کو آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔

’سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے خود آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا‘

آج کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سنی اتحاد کونسل کے وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ آزاد امیدواروں نے قانون کے مطابق 3 روز میں سنی اتحاد کونسل جوائن کی۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم  نے ان سے استفسار کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل کا کوئی امیدوار کامیاب ہوا تھا۔ جسٹس ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے تو خود آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا۔

قاضی انور ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ایسا ہی ہے، ان کا کوئی امیدوار بھی کامیاب نہیں ہوا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا 21 فروری 2024ء کو الیکشن کمیشن میں سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کی درخواست دی گئی۔

قاضی انور کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا، عدالت کا انکار

سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے جواب دیا، ’جی! انتخابات میں کامیابی کے بعد سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی گئی۔‘ عدالت نے ان سے پوچھا کہ اگر مخصوص نشستوں کو خالی چھوڑ دیا جائے تو کیا پارلیمان میں اقلیت اور خواتین کی نمائندگی نہیں رہے گی۔

قاضی انور نے سوال کا جواب دینے کے بجائے عدالت سے کیس کل سننے کی استدعا کی، جس پر عدالت نے واضح کیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔

قاضی انوار نے عدالت کو بتایا، ’درخواست بیرسٹر علی ظفر نے دائر کی ہے، اس لیے مجھے وقت دیا جائے کہ دلائل تیار کر لوں، مجھے کہا گیا تھا کہ ہم آ رہے ہیں مگر وہ آج نہیں آئے۔‘

عدالت نے ریمارکس دیے کہ سماعت ملتوی کرنے کی نہ درخواست دی گئی اور نہ ہی کوئی اور خبر، آج ایک ہی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا ہے، یہ تو عوام کے ساتھ زیادتی ہے، یہ لارجر بینچ ہے، ہم وقت ضائع نہیں کر سکتے۔

قاضی انور نے دوبارہ کیس ملتوی کرنے کی درخواست کی جسے عدالت نے مسترد کردیا اور کہا کہ اب اٹارنی جنرل کے دلائل سنیں گے۔

اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ کل سینیٹ کا الیکشن ہونا ہے۔ عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو اپنے حصے سے زیادہ سیٹیں ملی ہیں۔ فاروق ایچ نائیک بولے کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کا حق نہیں بنتا۔

’سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت ہے یا نہیں، یہ دیکھنا ہے‘

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے اپنے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ درخواست گزار پارٹی نے جنرل الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ فراہمی کا طریقہ کار الیکشن ایکٹ میں موجود نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ اسمبلی میں مکس ممبران کی نمائندگی کا قانون ہے، اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی ہے، سیاسی جماعتوں کو الیکشن سے قبل مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع کروانی پڑتی ہے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل کو سیاسی جماعت تصور کیا جا رہا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کے متعدد سیکشنز کے مطابق سنی اتحاد کونسل ایک سیاسی جماعت ہے یا نہیں یہ دیکھنا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل کے مطابق سنی اتحاد کونسل ایک سیاسی جماعت نہیں۔ اٹارنی جنرل بولے کہ جنرل سیٹ جیتنے کے تناسب سے سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں۔

’مخصوص نشستوں کا ایسا کیس کبھی سامنے نہیں آیا‘

عدالت نے اٹارنی جرل کو ہدایت کی کہ آرٹیکل 15 ڈی پر بحث کریں تاکہ واضح ہو جائے کہ سنی اتحاد کونسل ایک پارٹی ہے یا نہیں، کیا وہ صدارتی، سینیٹ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے الیکشن میں حصہ لے سکتی ہے اور کیا سنی اتحاد کونسل اپوزیشن لیڈر بنا سکتی ہے؟

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قانون میں سیاسی جماعت کو کم از کم جنرل الیکشن میں سیٹ جیتنا لازمی ہے، مخصوص نشستوں کا ایسا کیس کبھی سامنے نہیں آیا ہے، مخصوص نشستیں اس جماعت کو ملیں گی جس کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہو۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایک اور قانون بھی ہے کہ آزاد امیدواروں کو 3 دن کے اندر کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنی ہو گی، پارلیمنٹ میں نمائندگی نہ رکھنے والی پارٹی میں کوئی آزاد امیدوار چلا جائے تو کیا ہو گا، الیکشن کمیشن کے ایکٹ 2017 کو پاس کرتے وقت پارلیمنٹ مخصوص نشستوں کا معاملہ زیر غور نہیں لائی تھی۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لسٹ جمع کرانا ہر سیاسی جماعت کے لیے لازمی ہوتا ہے، الیکشن سے قبل لسٹ جمع کرانا لازمی ہوتا ہے، مخصوص نشستوں کو شائع کیا جاتا ہے، ووٹر مخصوص نشستوں کی لسٹ دیکھ کر کسی امیدوار یا جماعت کو ووٹ دیتا ہے۔

’وہ جماعت لسٹ نہیں دیتی جسے یقین ہو کہ وہ کوئی سیٹ نہیں جیتے گی‘

عدالت نے سوال کیا کہ اگر کوئی جماعت مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع نہ کرائے اور اگر وہ جماعت پاکستان کی بڑی جماعت ہو تو الیکشن ایکٹ اس معاملے میں کیا کہتا ہے؟

اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ الیکشن سے قبل ہر سیاسی جماعت لسٹ جمع کراتی ہے کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ یہ مخصوص نشستیں بھی حاصل کرے گی، کسی بھی جماعت کو مخصوص نشستیں لسٹ کے مطابق ملتی ہیں، جیتنے والی پارٹیوں کی لسٹ ہوتی ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ اگر پارٹی دی گئی فہرست سے زیادہ سیٹیں جیت جائے تو کیا ہوگا۔ اٹارنی جنرل بول، ’پھر تو وہ اضافی فہرست جمع کروا سکتی ہے، جو جماعت فہرست نہیں دیتی اسے یہ یقین ہوتا ہے وہ کوئی سیٹ نہیں جیت سکتی، کامیاب جماعتوں کو اسی بنیاد پر مخصوص نشستیں ملتی ہیں کیونکہ انہوں نے فہرست دی ہوتی ہے۔

’یہ جنرل نشستوں کے علاوہ مخصوص نشستوں کا سوچ بھی نہیں سکتے‘

جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے الیکشن ایکٹ 2017ء پاس کرتے وقت پارلیمنٹ مخصوص نشستوں کا معاملہ زیر غور نہیں لائی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین پارلیمنٹ میں خالی نشست کی اجازت نہیں دیتا۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ آئین کسی کو مجبور بھی نہیں کرتا کہ ایک مخصوص پارٹی جوائن کرنی ہے لیکن مخصوص نشستیں پارلیمنٹ میں موجود پارٹی کو ملتی ہیں، اگر کوئی آزاد حیثیت برقرار رکھنا چاہتا ہے تو مخصوص نشستوں کے حصول سے انہیں نکالا جائے گا۔

جسٹس ارشد علی  نے ریمارکس دیے کہ اب تو یہ صورتحال ہے کہ آزاد امیدواروں نے پارٹی جوائن کر رکھی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ جنرل سیٹس کے علاوہ مخصوص نشستوں کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

’سیٹ سیکیور‘ کرنے اور سیٹ جیتنے میں فرق ہے‘

پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے اپنے دلائل میں کہا کہ ان کی نہ کوئی فہرست تھی اور نہ ہی کوئی نشست، جو ان سے چھینی جاتی۔ جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ آئین میں لفظ ’سیکیور‘ اس لیے استعمال ہوا ہے کہ اس میں آزاد بھی شامل ہوں گی۔

فاروق نائیک نے دلائل دیے کہ سیٹ ’سیکیور‘ کرنے اور سیٹ جیتنے میں فرق ہوتا ہے، سیکیور کرنے میں کوئی محنت نہیں ہوتی جبکہ سیٹ جیتنے میں محنت کی ضرورت ہوتی ہے، الیکشن میں جانا ہوتا ہے، یہ کہتے ہیں کہ ہماری سیٹیں لے لی گئی ہیں۔ جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ یہ نشستیں ان کی نہیں ہے، یہ سیاسی جماعت کی ہیں۔

’آپ کو تو یہ اعتراض ہے کہ مانگے بغیر ہی مل گیا‘

جمعیت علما اسلام کے وکیل کامران مرتضیٰ نے اپنے دلائل میں کہا کہ اگر انتخابات میں ایک شخص کے مقابلے میں کسی نے کاغذات جمع نہیں کرائے تو الیکشن کے بغیر بھی وہ شخص جیت جاتا ہے، انھوں نے تو مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ دی ہی نہیں۔

جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ میں بلے کے انتخابی نشان کے کیس میں مخصوص نشست کا سوال آیا تھا، جس پر وکیل مرتضیٰ کامران نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت بیرسٹر علی ظفر کے سامنے بات ہوئی تھی، عدالت نے اس معاملے پر کوئی ریلیف نہیں دیا تھا۔

جسٹس ایس ایم عتیق شاہ بولے کہ آپ لوگوں  نے بھی تو ان کے لیے دروازے کھولے تھے، جس پر مرتضیٰ کامران نے عدالت کو بتایا کہ ہماری ان سے اس پر بات نہیں ہوئی تھی۔

جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے، ’آپ کو تو یہ اعتراض ہے کہ ہم نے مانگی نہیں اور ہمیں دے دی گئی ہیں، جب مال غنیمت تقسیم ہوتا ہے تو بچ جانے والا پھر انہی میں واپس تقسیم ہوتا ہے۔‘ جسٹس اعجاز انور کے ان ریمارکس پر عدالت میں قہقہہ بلند ہوا۔

سماعت کل تک ملتوی

اس موقع پر ایڈوکیٹ جنرل شاہ فیصل اتمانخیل نے عدالت کو بتایا، ’میں اس کیس میں وکیل تھا، میں نے اپنا وکالت نامہ واپس لیا ہے۔‘

جسٹس اشتیاق ابراہیمنے ریمارکس دیے کہ آپ اس میں وکیل تھے تو ہم پھر آپ کو نہیں سن سکتے، آپ اپنے کسی دوسرے لا آفیسر کو کیس حوالے کردیں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ کل تک ٹائم دے دیں پھر اس معاملے پر دوسرا لا آفیسر عدالت کی معاونت کرے گا۔

عدالت نے کیس کی سماعت کل صبح 9 بجے تک ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp