پاکستانی معیشت کپتان کے مداحوں کی لتریشن سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ وہ منحوس ڈائیلاگ ہے جو کپتان کے حمایتیوں سے عاجز آ کر اکثر لکھا بھی بولا بھی۔ ان جوانوں نے شاید پلے ہی باندھ لیا۔ پہلے آئی ایم ایف سے لیٹر بازی کی۔ وہاں انگور کھٹے دیکھ کر اب منہ طرف یورپی یونین کر لیا ہے۔ جی ایس پی پلس اسٹیٹس حاصل ہونے کی وجہ سے پاکستانی برآمدات کو ڈیڑھ ارب کا سالانہ فائدہ ہوتا ہے۔ جی ایس پی پلس اسٹیٹس حاصل کرتے ہوئے ہم نے کچھ پروٹوکول بھی سائین کر رکھے ہیں۔ جن میں انسانی حقوق، اظہار رائے کی آزادی وغیرہ شامل ہیں۔ پی ٹی آئی اب یورپی یونین کو ان پروٹوکول کا بتا بتا کر پاکستانی حکومت کی عالمی عزت افزائی کا اہتمام کرے گی۔
خیبرپختونخوا میں خود پی ٹی آئی کی حکومت 10 سال سے چلی آ رہی ہے۔ 10 سال میں اپنی شدید محنت، کوشش اور ہمت سے صوبہ دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا دیا گیا ہے۔ خود علی امین گنڈاپور کے الفاظ ہیں کہ جنہوں نے صوبہ کو ہزار ارب کا مقروض کیا ان سے پوچھا تو جانا چاہیے۔ تیمور جھگڑا کو صوبائی وزیر خزانہ نہ بنانے پر چلتی بحث کا یہ جواب گنڈاپور نے نام لیے بغیر دیا۔
علی امین گنڈا پور نے خیبر پختونخوا کا بجلی منافع یکمشت ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ فاٹا انضمام کے بعد نئی صورتحال کے مطابق نیشنل فنانس بل میں حصہ بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ایک دو بڑھکیں بھی لگائی ہیں کہ پیسے نہ دیے تو ہم بجلی بھی نہیں دیں گے۔ صوبے میں لوڈ شیڈنگ نہ کی جائے، اب بجلی کے بلوں کی ادائیگی کرتے صوبہ کی رائلٹی کاٹنے جیسے عوامی مطالبات بھی کیے جائیں گے۔ پی ٹی آئی کی اسٹریٹجی اچھی ہے، وفاقی حکومت ابھی ٹھیک سے بنی اور بیٹھی بھی نہیں ہے اور پی ٹی آئی کا اگلا پروگرام تیار ہے۔ علی امین گنڈا پور نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی ہے۔ اس میں خیبر پختونخوا کے واجبات اور سیاسی امور پر بات چیت بھی ہوئی۔
پی ٹی آئی نے جو حکمت عملی بنائی ہے، بہت زود اثر ہے۔ اے این پی مرحوم خیبر پختونخوا کی تگڑی سیاسی جماعت ہوا کرتی تھی۔ صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنا اور اپنے لیے شناخت کا حصول، کالا باغ ڈیم کی مخالفت 2 ایسے مطالبات تھے جنہوں نے اے این پی کی سیاست کو جوان رکھا۔ صوبے کا نام تبدیل ہو کر خیبر پختونخوا ہوا، کالا باغ ویسے ہی کھو کھاتے چلا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اے این پی اللہ کو پیاری ہو گئی۔ یہ جماعت بھاگتی دوڑتی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہے لیکن ووٹ سپورٹ اور نوٹ اس سے روٹھ چکے۔ ویسے کپتان نے جو مذہبی سیاسی برانڈ متعارف کرایا اس نے جماعت اسلامی اور جے یو آئی کی مذہبی سیاست بھی ٹھکانے لگا دی ہے۔
مسائل حل کرنے کے بجائے احتجاج کرتے جاؤ۔ پی ٹی آئی کی یہ پالیسی ان کو نتائج دے رہی ہے۔ کوئی ان سے یہ نہیں پوچھ سکے گا کہ جدھر تمہاری حکومت تھی وہ صوبہ ہزار ارب کا مقروض کیسے ہو گیا۔ یہ البتہ وفاقی حکومت کو آگے لگا لیں گے کہ ساڈا حق ایتھے رکھ۔
علی امین گنڈاپور کی نااہلی کے لیے ایک دلچسپ کیس بھی فائل ہو گیا ہے۔ کپتان کے ساتھ ملاقاتوں پر وقتی پابندی بھی لگ گئی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی ہیں۔ ان کا سیاسی بیک گراؤنڈ نہیں ہے۔ نگراں وزارت اعلیٰ سے وفاقی وزارت داخلہ تک پہنچے ہیں۔ کسی کو بہت پیارے ہوں گے تبھی تو ممبر قومی اسمبلی یا سینیٹر بنے بغیر ہی وزیر بن گئے ہیں۔ سینیٹر بھی بن ہی جائیں گے۔ پی ٹی آئی کو سیاسی انداز سے ڈیل کرنے اور لاڈلا رہنے کا جو تاثر تھا وہ محسن نقوی کے وزیر داخلہ بننے کے بعد قائم نہیں رہ سکے گا۔
پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت مرکز کے ساتھ محاذ آرائی تو کر لے گی۔ اس کا جواز بھی پی ٹی آئی کسی حد تک بنا لے گی۔ یہ محاذ آرائی بہت ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو ہی لے بیٹھے۔ دھاندلی کی خبروں سے اڑی دھول اب بیٹھ رہی ہے۔ الیکشن نتائج پر اعتراض اور احتجاج کرنے والے بھی حلف اٹھا چکے ہیں۔ معیشت اب حکومت کا فوکس رہے گا۔ نئے وزیر خزانہ ٹیکنو کریٹ ہیں۔ وہ کھاتے سیدھے کریں گے۔ ایسا کریں گے تو شور مچے گا۔ ایک تجویز میڈیا میں رپورٹ ہوئی ہے کہ وفاقی حکومت ان علاقوں میں فنڈنگ بند کر دے جو وفاق کے بجائے صوبوں کی ڈومین ہیں۔ ایسا کر کے وفاق ہزار ارب روپے بچا لے گا۔
ایسا ہوا تو اس بچت کا دوسرا مطلب یہ ہو گا کہ خیبر پختونخوا حکومت کی چادر سکڑ کر رومال سی رہ جائے گی۔ وفاق سے لڑائی، محاذ آرائی کرنے کو صوبائی حکومت کو ایک اور آپشن مل جائے گا۔ لیکن سوال بس ایک ہی ہے کہ کیا پی ٹی آئی اپنی سپورٹ برقرار رکھ پائے گی؟ خیب پختون خوا کے وزیراعلیٰ کی وزیراعظم سے ملاقات بتاتی ہے کہ پبلک پریشر اور مالی معاملات سیاست میں نرمی لاسکتے ہیں۔ لوگوں کو تو اپنے کام کرانے ہوتے ہیں وہ کب تک سڑکوں پر رہیں اور احتجاج کریں؟